میرا جی کی نظم نگاری||میرا جی کی شاعری خصوصیات

میرا جی کی شاعری خصوصیات 

مزاحمتی عناصر 
نئ لسانی صورتحال 
ہندی روایت کی عکاس 


میرا جی 1912ءمیں ایسے شخص کے ہاں پیدا ہوئے جو کام کے اعتبار سےتو اسے برطانیہ کے سب سے بڑی کالونی کا وفادار ملازم مذہبا کٹر مسلمان اور طبعا شاعر ہے جس زمانے میں میرا جی پیدا ہوئے سن شعور کو پہنچے اور اپنے باپ کے ساتھ ساتھ مختلف ہندوستان کے ریلوے اسٹیشن پر زندگی کے  چل چلاؤ کا مشاہدہ کرنے ریل کی پٹڑی کے دونوں جانب پھیلی ہوئی بنجر اداسی ڈراونے سناٹوں میں زندگی کے ہنگاموں سے بھرپور رونقوں کے خواب دیکھنے میں مصروف تھے وہ زمانہ ہماری تاریخ کا عجیب و غریب ہے سیاسی طور پر یہ عہد ہندو مسلم اتحاد اور ادبی طور پر ہندوستانیت کی بڑھتی ہوئی لے کا منظر پیش کرتا ہے

 تحریک خلافت اور جمعیت علمائے ہند کی رہنمائی میں تمام ہندی مسلمان کانگریس کے دوش بدوش ملک کی آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں ادبی محاذ پر سرعبدالقادر، مولاناعبدالحق مولانا شرر اور تاجور نجیب آبادی کے رسالوں میں نظم و نثر کی اصلاح کے متعلق اس قسم کے پروگرام شائع ہو رہے ہیں

 (الف )

اردو سے عربی و فارسی کے سکیل الفاظ نکال کر اسے عام  فہم ہندی زبان بنانا

 (ب)

اردو نظم کو ہندی وضو میں منتقل کرنے

(ج)

 اردو نظامی ہندی مضامین ہندی خیالات اور ہندوستانی واقعات کو بیان کرنا

 مولانا تاجور کے لفظوں میں سے اصلاح کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اردو شاعری ہندوستانی شاعری بن جائے گی یہ اس وقت کا دور ہے جب مسلمان اور ہندو کے درمیان ہندو مسلم  نفاک بڑھ چکا تھا اور مسلمانوں کو ذہن میں یہ کشمکش بھی اپنے عروج پر ہے کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی اس بڑی اسلامی دنیا کا اٹوٹ انگ مسلمان عجیب ہندو مسلم نفاقی کی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے اسی زمانے میں مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھا

 "میں بیک وقت ایک ہی قدر کے دو متحارب دائروں میں  گھرا ہوا ہوں جن میں سے ایک کا نام ہند ہے اور دوسرے کا اسلامی دنیا"

 مستقبل سے بے نیازی

علامہ اقبال جن وجوہات کے نمائندہ تھے وہ سیاست کی دنیا میں ابھی زیر زمین کام کر رہے تھے اس لیے اس کشمکش کو حل کرنے کا آسان مگر منفی حل ابو الکلام جیسے  سیاستدانوں اور میرا جی جیسے شاعروں کو یہ نظر آیا کہ وہ  ہندوستانی قومیت کے تصور کو اپنا کر ہندوستان میں ضم ہو جائیں چنانچہ میرا جی مستقبل کا تصور تک نہیں کر سکتے

 مستقبل سے میرا تعلق بے  نام سا ہے میں صرف دو زمانوں"  "کا انسان ہوں

" ماضی اور حال  یہی دو دائرے مجھے ہر وقت گھیرے رہتے "ہیں اور میری عملی زندگی بھی انہی کی پابند ہے

 میرا جی کے مستقبل سے بے نیاز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے باپ کے سب سے بڑے فرزند تھے  جو ریٹائر ہو چکے تھے اور گھر بھر کی امید بھری نظریں ہیں میرا جی پر مرکوز تھی مگر میرا جی کے پاس اعلی تخلیقی صلاحیت کے باوجود میٹرک تک سند نہ تھی  نتیجہ یہ ہوا کہ میرا جی ایک ایسی سرزمین کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے جو اس دنیا سے الگ تھی

 


مجھ کو کچھ ہے نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے

 مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ بے کار سماج

 اپنی پابندی سے دم گھٹ کے فسانہ بن جائے

 میری آنکھوں میں تو مرکوز ہے اب روزن کا سامان

 اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کے لئے

 میں اسی روزن بے رنگ میں گھس جاؤں گا

 لیکن ایسے تو وہی بت نا کہیں نہ بن جاؤ

 جو نگاہوں سے ہر ایک بات کہے جاتا ہے

 چھوڑ کر جس کو صنم خانے کی محبوب فضا

گھر  کے بے باک المناک سیاہ خانے میں

 میں تو روزن میں نہیں جاؤں گا دنیا مٹ جائے

 اور دم گھٹ کے فسانہ بن جائے

 جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں سکتی

 میں ہوں آزاد مجھے فکر نہیں ہے کوئی

 ایک گھنگھور سکوں ایک کڑی تنہائی

 میرا اندوختہ ہے


محبوبہ کا تصور

 گھر کے بے باک المناک سیاہ خانے میں آرزوۓ ستم دیکھنے  گلنے اور اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کی خاطر میرا جی نے عشق کے طائر آور کا بہروپ بھر لیا  مگر اس بہروپ کے نتیجے میں میرا جی کا بدن کراہتا رہا روح تلملاتی رہی  اس بہروپ کو اتار کر دیکھا جائے تو میرا جی لاہور کی بنگالی لڑکی ،دلی کی مسلمان لڑکی ،ممبئی کی پارسی لڑکی اور لکھنؤ کی بیوہ خاتون سے بےنیاز دکھائی دیں گے وہ کسی مثالی حسن کے طلبگار نہیں  کوئی سی لڑکی ان کی محبوب بن سکتی ہے بشرطیکہ وہ ان کی دلہن بن کر ان کا گھر آباد کرنے پر آمادہ ہو

  میرا جی کے ہاں محبوبہ کا تصور دلہن کا تصور ہے اپنی کتاب اس نظم میں سید علی منظور کی بے حد معمولی نظم برادرنسبتی کے مطالعہ کے دوران میرا جی بڑے جذباتی لہجے میں اس امر پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ نئے شاعر  یا تو زندگی اور گھریلو محبت میں رومان کی دلکشی کو نہیں دیکھ پاتے  اسی طرح اپنی غیر مطبوعہ کتاب اجنتا کے غار کے نامکمل دیباچہ میں میراجی نے بتایا ہے کہ

 میری ایک عزیزہ ہے انہیں میرے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہے ایک روز باتوں باتوں میں انہوں نے عورت کو ستون کہہ کر اپنا مفہوم ظاہر کیا آج میں غور کرتا ہوں تو ان کی یہ بات مجھے صحیح معلوم ہوتی ہے خیال زندگی میں شاعری کرتے ہوئے عورت کو غزل میں جو کچھ کہہ لے لیکن عملی زندگی میں تو عورت مرد کے گھر میں  ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہے ایسی سوچ پر قائم ہے اور آرام کے لئے سر چھپانے کی جگہ مہیا رہتی ہے  اور اس کے ہونے سے بچے پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہونے سے نظمیں  خصوصا میری نظمیں اس لیے پیدا ہوئی کہ اپنے گھر میں اس ستون کی غیر موجودگی میں تخلیق کا  کام مجھ کو کرنا  پڑا میرا جی کی شاعری تنہائی نا آسودگی اور نارسائی کی جن کیفیات  کی ترجمان ہے وہ میرا جی کے ذاتی المیہ سے پھوٹی ہیں

 دلہن کے بارے میں تصور میرا جی کی شاعری میں ہر جگہ پر موجود ہے کہیں پس منظر میں کہیں پیش منظر کے طور پر  اس کے کانوں میں بندے ہیں ماتھے پر بندی ہاتھوں میں گجرا گلے میں ہار اور باریک دوپٹہ سر پر لئے اور آنچل کو کابو میں کیے روم روم سندر سنگھار سے سنوارے سچی بن سیج  بیٹھی دلہن کا انتظار کر رہی ہے اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی دولہن کی بہن خوشی میں سرشار ہے


 کیوں بہن ہم نے سنا ہے کہ دلہن کی آنکھیں
 آنکھ بھر کر نہیں دیکھی جاتی
 اور کہتی ہے بہن
 میرے بھیا  کو بڑا چاو ہے کیوں پوچھتا ہے
 اب تو دو چار ہی دن میں وہ ترے  گھر ہوگی

(تفاوت راہ)

 مگر المیہ یہ ہے کہ دولہا اور دلہن تک نہیں پہنچ سکتا گھر بسانے کے لئےجن مادی وسائل کی ضرورت ہےوہ اسکی دسترس سے باہر ہیں 


لب جوئبارے 

   میرا جی کہ وہ  بد نام نظم ہے مگر مجھے یہ نظم اپنی سفاک حقیقت نگاری اور بے رحم بے باقی کے باوجود اس لیے پیاری لگتی ہے کہ میرا جی تخیل کی دنیا میں بھی کسی عورت کے حسن کو بھرتے ہیں تو پہلے اس کو دلہن بنا لیتے ہیں

 

جس کے اس پار جھلکتا نظر آتا ہے مجھے

 منظر آ جانا چھوٹی سی دلھن کی صورت

 ہاں تصور کو میں اپنابنا کر دولہا

 اسی پردے کے نہاں خانے میں لے جاؤں گا

(لب جوئبارے )


 میرا جی نے الزام کی تردید کرتے وقت کی زندگی کا محض جنسی پہلو ہی ان کی توجہ کا مرکز ہے کہا تھا کہ وہ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو قدرت کے سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی رات وبرکت سمجھتے ہیں  تہذیب و تمدن میں جس جنس کے ارد گرد جو آلودگی قائم کر رکھی ہے اور جس کی وجہ سے قدرت کی یہ سب سے بڑی نعمت جنس بازار بن کر رہ گئی ہے اس پر میرا جی کے ہاں بعض اوقات بے انتہا تلخی اور کراہت سے لبریز تصویریں بھی نظر آ جاتی ہیں مگر مجموعی طور پر وہ جنسی جذبات کوئی وقت کی حد تک پاکیزہ سپردگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں

 

ایک ہی بات جو پہلو میں چھپائے ہوئے سو باتوں کو

 رات کو دلہن کی طرح نور سے بھر دیتی ہے

 دل پہ ایک سحر سا کر دیتی ہے

 (اجنتا کے غار)


 میرا جی کے ہاں دن ظلم کی علامت ہے اور رات تخلیق جوش نمو کی علامت آمد صبح اور سنجوگ جیسی نظموں میں رات اور چاند پرائمری میں ہیں سورج رقیب اور غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب تک کہ بے حد دلکش وقفے زماں میں انسانی عشق کا ڈرامہ سارے رنج و راحت سمیت دیکھا جا سکتا ہے رات اور دن کی یہ علامات آتی اور رومانی ہی نہیں اجتماعی اور سیاسی رنگ بھی رکھتی ہیں

 


رات کے سائے ہیں خاموش رہا کرتے ہیں

 دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں

 بیٹی لذت کی کہانی سب سے

 اور میری ہستی بھی اب دن کا ہی ایک سایہ ہے

 جس کی ہر ایک کنارے کا شاعر سوزہ

 اتنی شدت سے جلانے پر مٹانے پر تلی بیٹھی ہے

 کاش آجائے گھٹا چھائی گھٹا اور بن جائے

 چڑھتے سورج کا زوال

 (دن کے روپ میں رات کہانی)


 میرا جی نوجوانوں کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ نوجوان جس نے شہری تنظیموں اور سنتیں اخلاقیات کا شکار ہے وہ گھریلو زندگی کی تقریب کے بعد عزت اور آسودگی کے نت نئے ڈھنگ پیدا کر رہی ہے اعلی تعلیم کے باوجود یہ نوجوان زندگی کی دوڑ میں زیادہ سے زیادہ کلرک بن سکتا ہے میرا جی نے اس کلرک کا نغمہ محبت لکھا ہے اس نوجوان کو مشینی زندگی کے سکون میں آنے سے نجات نہ پا   سکنے کے غم  کو دفتری فائل کو غرق کرنا پڑتا ہے مگر افسر اس کی شان ہی اور ہے

 


جب دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے

 اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپڑاسی سے بلو آتا ہے

 یوں کہتا ہے ووں کہتا ہے لیکن بے کار ہی رہتا ہے

 میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں تھک جاتا ہوں

 پل بھر کے لئے اپنے کمرے کو فائل لینے آ جاتا ہوں

 اور دل میں آگ سلگتی ہے میں بھی جو کوئی افسر ہوتا

 اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور میرا پھر گھر ہوتا

 !اور تو ہوتی

 لیکن میں تو ایک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے

 یہ میری پریم کہانی اور دھرتی سے بھی پرانی ہے

( کلرک کا نغمہ محبت)


 میرا جی کی نظمیں جن میں میرا جی کی شاعری انتہائی اعلی معیار کو پہنچتی ہے

Post a Comment

0 Comments