میراجی||میرا جی کی شاعری خصوصیات||میرا جی اورمیراسین||Meeraji Profile&Biography

میرا جی meeraji

میراجی


 میرا جی کی شاعری کی خصوصیات

      ” میرا جی کو سمجھنے کے لئے انسان کو

       میراجی بننا پڑتا ہے “   

میرا تعارف میرا جی سے تفصیل کے ساتھ کل ہی ہوا تصویر دیکھ کر دل کے اندر خوف پیدا ہوں گیا اور ذہن کے اندر ایک ہی سوال پیدا ہوتا رہا کہ امیر جی شاعر ہیں یا پیر دوستوں میں آپ کو میرا جی کا تعارف چند سطروں میں کروا دیتا ہوں

 میراجی کا حلیہ 

        لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں مالا، 

         شیروانی پھٹی ہوئی ، اوپر نیچے بیک ، وقت

             تین پتلونیں اوپر کی جب میلی ہو گئی 

                     تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی

                             نیچے بدل لی جاتی

 پیدائش اور نام

میراجی، جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا ان کے والد کا نام  منشی محمد مہتاب الدین تھا میراجی کی والدہ کا نام زینب بیگم المعروف سردار بیگم تھا میرا جی سات بہن بھائی تھے میرا جی ۲۵ مئی ۱۹۱۲ کو  پیدائش بلوچاں مزنگ لاہور میں ہوئی 

             بچپن

میراجی کو اسکول کے زمانے سے ہی شاعری ،کرکٹ، موسیقی اور مطالعے کا شوق تھا اور قدرتی مناظر میں کوئی تخلیقی یا رومانی پہلو تلاش کرنے کی لگن۔ وہ بچپن میں بہت اچھا گایا کرتے تھے اور مطالعے کے بے انتہا شوقین تھے ۔ان کے پاس جب بھی پیسے ہوتے وہ کتابیں خریدتے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی لائبریری کا ذخیرہ پانچ سو کتابوں کی تعداد سے تجاوز کرگیا ۔ نویں جماعت سے شعر کہنے لگے تھے اور ساحری ؔ تخلص اختیار کیا تھا۔جس کمرے میں ان کی رہائش تھی اس کانام انھوں نے ساحر خانہ رکھا ہوا تھا۔ اسکول کی ادبی مجلس کے سکریٹری تھے ، ڈراموں میں حصّہ لیا کرتے اور کئی انعامات جیت چکے تھے

                               تعلیم

میراجی نے اپاوہ گڑھ کے اسکول سے پانچویں کا امتحان پاس کیا چھٹی جماعت کے لیے ریلوے پنجابی سکول میں داخلہ لیا وہاں سے اٹھ جماعتیں پاس کی اور پھر میٹرک کے لیے لاہور چلے گئے تین دفعہ میٹرک کا امتحان دیا لیکن پاس نہ ہوسکے ان کی میٹرک کی تعلیم کے حوالے سے الطاف گوہر لکھتے ہیں

         جن دنوں میٹرک کے پیپر تھے ان دنوں ہی

           میراجی عشقِ کر بیٹھے جب میٹرک کا

          رزلٹ آتا تو ایسے لگتا کہ میرا جی صرف

           پیپر پر رول نمبر لکھ کر چلے آتے ہیں           

               ثناء اللہ ڈار سے میراجی  

لاہور ایف سی کالج کی سامنے والی عمارت میں ایک بنگالی خاندان رہتا تھا ان کی ایک بچی کالج میں پڑھتی تھی۔ایک روز جب وہ یونیورسٹی گراؤنڈ کے قریب اپنی ایک سہیلی کے ساتھ گزر رہی تھی تو اسے لمبے بالوں والے ایک نوجوان نے روکا اور کہا کہ میں آپ سے کچھہ کہنا چاہتا ہوں۔ لڑکی رکی مگر نوجوان کچھہ بھی نہ کہہ سکا۔

آپ ضرور یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ لڑکی کون تھی اور نوجوان کون تھا؟ اچھا سنیے لڑکی میرا سین تھی اور نوجوان ثنا اللہ ڈار تھا۔ اس نا آسودہ ملاقات کے بعد ثنا اللہ ڈار میراجی بن گیا۔

میراجی یونیورسٹی گراؤنڈ کے ایک کونے میں بیٹھا کرتا تھا یہ کونا جین مندر کے پیچھے تھا۔ میراجی اس کونے میں 

شست جما کر میرا سین کے گھر کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ اس گھر کی بالکونی میں ایک الگنی بندھی رہتی تھی جہاں میرا سین اپنی رنگ برنگ ساڑھیاں دھوپ میں ڈالتی تھی اور میرا جی اسے دور سے دیکھتا رہتا تھا۔

کچھ مدت بعد میرا سین کا خاندان اپنے شہر کلکتہ واپس چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی الگنی پر ساڑھیوں کی بہار بھی رخصت ہوگئی۔ ا سینمیر چلی گئی مگر میرا سین کا امیج میراجی کے لیے ایک تخلیقی تجربہ بن گیا۔ وہ عمر بھر اس امیج کے حصار میں رہا اور یوں میرا سین کا امیج میراجی کے لیے ایک باطنی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔

                          ملازمت

میرا جی ۱۹۳۸ ء سے ۱۹۴۱ء تک "ادبی دنیا" سے وابستہ رہے۔ تنخواہ بہت کم تھی لیکن  اس ملازمت نے ان کے فکر و شعور کو وہ جلا بخشی جس نے انہیں میرا جی بنایا۔ ۱۹۴۱ میں ان کو ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ملازمت مل گئی۔ اور ۱۹۴۲ میں ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔

                         پہلی نظم

میراجی نے اپنی پہلی نظم آٹھ سال کی عمر میں لکھی جس کا عنوان خواب تھا 

                            شادی

شادی کے متعلق ایک انٹرویو میں میراجی کہتے ہیں

          میری شادی شاعری سے ہوگئ ہے

              میراجی اور نفسیاتی حالت 

الطاف گوہر ایک انٹرویو میں میرا جی کی نفسیاتی حالت کے بارے میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں

         لاہور میں جب محلے کے بچے انہیں دیکھ کر

        بڈھی میم کے نعرے نہ لگاتے تو میراجی رک کر

        اپنے بال مٹھی میں پکڑ کر  دور سے بچوں کو

        دکھاتے اور اشارے سے انہیں بلاتے اور بچے جمع

        ہو کر بڈھی میم، بڈھی میم کے نعرے لگاتے یہ

        میراجی کی کمزور تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ 

       لوگ انہیں دیکھیں

                   میراجی اور شراب نوشی

 ڈرامہ کرنے کی عادت میراجی کی گھٹی میں پڑی تھی شاید ساری زندگی اپنے آپ سے بھئ ڈرامہ ہی کرتے رہے اور دوسروں سے بھی خاص طور پر شراب پی کر تو وہ اپنے آپ میں نہیں رہتے تھے شاہد احمد دہلوی ان کی شراب نوشی کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں

         ایک دن یہ ہوا کہ رات ڈھلے میراجی جھومتے

       جھومتے آئے اور یوسف ظفر کے گھر کے سامنے

      والے مکان کا دروازہ پیٹ ڈالا اور نہایت بے تکلفی

     اس ثقہ کنوارے کے گھر میں در آئے اور اندر سے

    کنڈی لگا لی بے چارے نے گھبرا کر پوچھا آپ جواب

    ملا جی میرا نام میرا جی ہے فرمائیے اس وقت کیسے

     آنا ہوا میں آج بیئر کی اٹھارہ بوتلیں پی کر آیا ہوں یہ

    کہہ کر فرش پر اٹھارہ کی اٹھارہ بوتلیں اگل دیں آپ

    نے سامنے والے گھر کا دروازہ پیٹا تھا وہاں کیوں اس

    عورت نے چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیا محلے والے

    گھبرا کر گلی میں نکل آئے کون تھا کون تھا کون بتاتا

     کہ کون تھا

                  میراجی اور جنسی معاملہ 

اخلاق احمد دہلوی جو میرا جی کے دوست تھے وہ ان کے جنسی معاملات کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں

      جب اسے اپنی محبوبہ کا جسم میسر نہ آیا تو 

                  میرا جی کا اسلوب 

ماضی پرستی ، جنسی حوالہ ، مغربی شعراء کا اثر ، ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر ، ابہام، علامت نگاری ، خارجیت ،اذّیت پسندی 

          آخری وقت میں میرا جی کا حلیہ

مرنے کے کچھ دن پہلے ان کا حلیہ ان کے دوست اعجاز احمد کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں

     بدن لاغر ، حلیہ غلیظ ،اور سفید بالوں کی لمبی

    اور میلی لٹیں میں گتھی ہوئیں کہ پورا سر راکھ

     کا ڈھیر لگے ہاتھوں میں سگریٹ کی خالی ڈبیاں

      شلوار پر پشیاب کے نشانات

وفات

کثرت شراب نوشی اور کھانے پینے میں بے قاعدگی کی وجہ سے ان کی صحت بہت خراب ہو چکی تھی۔ ان کو اسہال کی شکایت تھی لیکن نہ پرہیز کرتے تھے اور نہ علاج۔جب حالت دگر گوں ہوتے دیکھی تو اختر الایمان ان کو اپنے گھر لے گئے لیکن وہاں بھی وہ پرہیز نہیں کرتے تھے ۔جب حالت زیادہ بگڑی تو ان کو سرکاری اسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہان وہ کینٹین والوں اور دوسرے ملازمین سے بلکہ کبھی کبھی ساتھ کے مریضوں سے بھی کھانا مانگ کر بد پرہیزی کرتے تھے۔ ان کی دماغی حالت بھی   ٹھیک نہیں تھی ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ آتشک کے مریضوں میں اکثر اس قسم کی پیچیدگیاں پیدا  ہو جاتی ہیں۔ میرا جی کے آخری ایّام انتہائی اذیت ناک تھے۔  ان کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ہاتھوں پیروں اور پیٹ پر ورم تھا خون بننا بالکل بند ہو گیا تھا۔ ۳ نومبر ۱۹۴۹ء کو ان کا انتقال ہو گیا جنازے میں پانچ آدمی تھے۔۔۔ اختر الایمان ،مہندر ناتھ ،مدھو سودن، نجم نقوی اور آنند بھوشن۔ تدفین میری لائن قبرستان میں ہوئی۔تمام کوششوں کے باوجود بمبئی کے کسی اخبار  نے ان کی موت پر ایک لائن کی خبر بھی نہیں شائع کی

میرا جی کی نظم نگاری  اور انکی نظموں کے بنیادی موضوعات کیا ہیں ۔؟


Introduction of Meera Ji

 Characteristics of Meeraji's Poetry

      ” Man to understand my ji

       Miraji has to be.”

I was introduced to Meera ji yesterday in detail. After seeing the picture, I felt fear in my heart and one question kept arising in my mind that Ameer ji is a poet or a friend. I give

     Miraji's dress

        Long hair, big moustache, necklace,

         Sherwani ripped, top down back, time

             Three pants up when it got dirty

                     So the bottom up and the top up

                             Changed below

 Birth and name

Miraji, whose original name was Muhammad Sanaullah Dar, his father's name was Munshi Muhammad Mehtabuddin, Miraji's mother's name was Zainab Begum, also known as Sardar Begum, Miraji had seven siblings.

 Childhood

From his school days, Miraji was fond of poetry, cricket, music and studies, and had a penchant for finding a creative or romantic aspect in natural scenes. He used to sing very well as a child and was extremely fond of reading. Whenever he had money, he would buy books, until within a short time his library collection exceeded five hundred books. He started reciting poetry from the ninth grade and adopted the pseudonym Sahiri. The room in which he lived was named Sahir Khana. He was the secretary of the school literary council, participated in plays and won many prizes

  Education

Miraji passed the 5th standard exam from the school in Apawagarh, he joined the Railway Punjabi School for the 6th standard, from there he passed the 8th standard and then went to Lahore for matriculation, he took the matriculation exam three times but failed to pass his matriculation. Altaf Gohar writes about education

         Only in the days when there were matriculation papers

           Miraji fell in love when matriculation

          When the result comes, it seems that my only life

           Write the roll number on the paper and leave

   Meeraji from Sanaullah Dar

A Bengali family lived in the building in front of Lahore FC College. Their daughter was studying in the college. One day when she was passing with a friend near the university ground, a young man with long hair stopped her and said. That I want to tell you something. The girl stopped but the young man could not say anything.

You must want to know who was the girl and who was the young man? Listen well, the girl was my heart and the young man was Sanaullah Dar. After this uneasy meeting, Sanaullah became Dar Miraji.

Miraji used to sit in a corner of the university grounds, this corner was behind the Jain temple. Miraji used to sit in this corner and look towards Mira Sen's house. An Algini used to be tied in the balcony of this house where Mira Sen used to put her colorful sarees in the sun and Mira Ji used to watch her from a distance.

After some time, my sen's family moved back to their city Calcutta and with it the spring of sarees on Algini also left. The scene was gone but the image of the scene became a creative experience for Miraji. He was surrounded by this image throughout his life and thus the image of Mira Sen became an inner center for Miraji.

   Job

Mira ji was associated with the "literary world" from 1938 to 1941. The salary was very low but this job ignited his thinking and consciousness which made him Mira ji. In 1941, he got a job at Radio Station Lahore. And in 1942 he was transferred to Delhi Radio Station.

       The first poem
Mira ji wrote her first poem at the age of eight, titled Khabam

   Wedding

Miraji says in an interview about marriage

          I am married to poetry

    Meeraji and Psychological State

In an interview, Altaf Gohar describes Miraji's psychological condition as follows

         In Lahore, when the children of the neighborhood saw him

        Miraji stop if you don't shout Badhi Meem slogans

        Holding her hair in her fists, children from afar

        Showing and calling them with signs and the children gathered

        They used to shout Badhi Mem, Badhi Mem

        Miraji's weakness was that he wanted that

       People see them

       Meeraji and Alcoholism

 The habit of drama was in Miraji's mind, perhaps he continued to dramatize himself all his life and especially with others, when he drank alcohol, he was not himself. Describe the incident
            

         One day it happened that at night the Miraji was swinging

       They came swinging and in front of Yusuf Zafar's house

      He knocked on the door of the house and very frankly

     This faith entered the house of the virgin and from inside

    The poor man got the latch and asked for your answer

    My name is Mera Ji. Tell me how at this time

     Come today, I have drunk eighteen bottles of beer

    After saying, throw eighteen bottles of eighteen on the floor

    He had knocked on the front door of the house, why was he there?

    The woman screamed and raised the sky on her head

    They panicked and came out into the street. Who was who? Who was who?

     Who was

Meeraji and the Sexual Affair

Akhlaq Ahmed Dehlvi, who was a friend of Meeraji, describes their sexual affairs as follows

      When he did not get the body of his beloved

                  My style
Retrospectism, sexual references, influence of Western poets, influence of Vaishnavism or Hinduism, ambiguity, symbolism, exoticism, chauvinism.

          At the last moment my ji's haliya
A few days before his death, his friend Ijaz Ahmed describes his halia like this

     Slim body, dirty clothes, and long white hair

    And the whole head was covered in ash

     Heaps of empty cigarette packs in his hands

      Sweat marks on shalwar

   DEATH

His health had deteriorated due to heavy drinking and irregular eating. He complained of diarrhea, but he did not abstain or treat it. When he saw the condition changing, Akhtar Ul Ayman took him to his house, but even there he did not abstain. When the condition worsened, he was admitted to the government hospital. He used to beg for food from canteens and other employees and sometimes also from fellow patients. His mental condition was also not good. Doctors said that such complications often occur in syphilis patients. My last days were very painful. All his hair had turned white. There was swelling on his hands, feet and stomach. Blood formation had completely stopped. He died on November 3, 1949. There were five people in the funeral. Akhtar Ul Ayman, Mahendra Nath, Madhu Sudan, Najam Naqvi and Anand Bhushan. Burial took place at Maryline Cemetery. Despite all efforts, no newspaper in Bombay published a single line on his death.

Post a Comment

4 Comments