میرا جی کی نظموں کے بنیادی موضوعات کیا ہیں انہوں نے جنسی آسودگی کو ہی اپنی نظموں کا نمائندہ خاص کیوں بنایا
میراجی Meeraji |
شخصی حوالے سے میرا جی اردو نظم کے بد نام ترین شاعر ہیں بدقسمتی سے لوگ ان کی شخصیت میں الجھ کر رہ گئے اور ان کی شاعری کی طرف توجہ بہت کم رہی لیکن پاکستانی نظم پر ان کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان کے ہاں منفی دنیا کی سیاحت کے ساتھ ساتھ اندر کی دنیا کی طرف سفر اور زمین سے گہری وابستگی ملتی ہے ان کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے میرا جی کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے کہ انسان کیا ہے اس لیے اس نے مختلف سفر کیا اور جنس کو اپنا موضوع بنایا اس کے بعد اس نے تصوف کا راستہ اختیار کیا کیونکہ وہ عرفان نفس چاھتا تھا جہاں تک جنس کا تعلق ہے تو اس کے ہاں جنسی تجربے تو ہیں لیکن لذت کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے
ایک ہی پل کے لیے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی"
آنکھ سے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ھے
پھر بصارت کو نہ تھی تاب کے وہ دیکھ سکے
کیسے تلوار چلی کیسے زمین کا سینہ
ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا
اگر ھم بات کریں میرا جی کی نظموں میں جنسی آسودگی کے بارے میں تو میرا جی کی نظمیں ہندی اہنگ میں خاص ڈھلی ہوئی ہیں ان کی نظموں میں گیت سار چاؤ پیدا کر دیتی ہے لیکن ہندی الفاظ و تراکیب کی بھرمار نظم کے مزاج کے خلاف ہے میرا جی کی نظمیں ایسی ہیں جو ان کی جنسی حیثیت کی نمائندگی کرتی ہیں مثال کے طور پر
دکھ - دل کا دارو سرگوشیاں سنجوک سرسراہٹ دور نزدیک ایک تصویر لب جوئے بار
میرا جی کی نظموں کے بارے میں خود کچھ یوں کہتے ہیں میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسیت ہے
مثلا ایک نظم میں کہتے ہیں
ایک خنجر اتار دوں میں چبھا چبھا کر "
سفید مر مر سے مخملیں جسم کی رگوں میں
اور ایک بے بس حسین پیکر
مچل مچل کر تڑپ رھا ھو
میری نگاہوں کے دایرے میں
رگوں سے خون کی ابلتی دھاریں
"نکل نکل پھسلتی رہتی ھوں
مزید جانیے میراجی کی سوانح نگاری انکی معشوقہ میراسین اور شاعری خصوصیات کے بارے میں
0 Comments