Nazar Muhammad Rashed |
راشد کی بغاوت کے بارے میں کرشن چندر کا خیال ہے کہ فنی نقطہ نظر سے راشد صحیح باغی شاعر ہے اس کا تخیل ہمیشہ موروثی زبان کے الفاظ معانی ،اسالیب بیان بندشوں اور ترکیب کو توڑنے نکالنے ان کو نئے سانچوں میں ڈھالنے انہیں مختلف صورتیں دینے اور اور ان سے نئے معنی کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی شاعری میں نفسیاتی تحلیل اور جذباتی تسلسل ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ان دونوں کے ہم آہنگ ہونے سے ایک آزاد تسلسل کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے نئی روش اختیار کر کے پرانے راستوں کو خیر باد کہنے والے شعر کو عموما بد راہ قرار دیا جاتا ہے چنانچہ یہی لیبل راشد پر بھی لگا اور یہ کہا گیا کہ ان کی نظم مبہم ہے اور اس کا ابلاغ نہیں ہوتا لیکن راشد تندی باد مخالف کے ان جھونکوں سے بالکل متاثر نہیں ہوئے اور اپنے دور میں مسلسل آگے بڑھتے رہے اس لئے آج انہیں روایت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ان کی نظم" آنکھوں کا جال "ملاحظہ کیجئے
آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال
میز کی سطح درخشندہ کو دیکھ
کیسے پیمانوں کا عکسِ سیمگوں
اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا
جیسے میری روح میری زندگی
تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے
مے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں
قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج شب تیرا دز دردانہ ورود
عشق کا ہیجان آدھی رات اور تیرا شباب
تیری آنکھ اور میرا دل
عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار
0 Comments