ن م راشد کی شاعری کی خصوصیات||ن م راشد کی شاعری||ن م راشد کی نظم نگاری

کیا ن م راشد کی شاعری کے موضوعات میں بغاوت اور فرار کے اسباب بھی ملتے ہیں؟

Noon Meem Rashid
 ن م راشد کی شاعری بغاوت اور فرار کے اسباب

 Noon Meem Rashid Poetry Ideas


قدیم زمانے میں نظم کے موضوع پر نظم کی عکاسی کرتے تھے لیکن راشد کہا ایسی کوئی مثال نہیں ملتی نظم کی تعمیر اور ارتقائی خیال کی سادگی اور بیانیہ انداز سے مختلف ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی کی نظمیں افسانوی اور ڈرامائی انداز سے شروع کر ختم ہو جاتی ہیں حیران کن حد تک اور موضوعات کے اعتبار سے ابہام کا شکار ہے اور دوسری طرف ان کی شاعری نے انہیں جنسی علی فرار حاصل کرنے والا شکست خوردہ ذہنیت کا مالک مریضانہ انفرادیت کا حامل شخص کفر و الحاد کا شکار اور سماجی سطح پر غیر متوازن بنا دیا راشد کی شاعری میں علامت نگاری جمانے کے مروجہ اصولوں سے ہٹ کر ہے داخلیت اور خارجیت کی امتزاجی شکلیں ذات اور غیر ذات فرد اور اجتماعیت انسان اور فطرت کا تعلق اور اس کی کشمکش کی رنگارنگ مسائل کو راشد کے خیالات اور محرکات کے پس منظر میں دیکھیں تو دو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں بنتی ہے
اپنی نظم "شاعر درماندہ" میں اظہار کی مثال یوں ہے 
 ن م راشد کی شاعری میں بغاوت کے اثرا ت  
ن م راشد کے کلام میں بغاوت کا جو زاویہ نمایاں نظر آتا ہے وہ غیر ملکی استعمار اور غاصب و اجنبی حکومت کے خلاف نفرت اور سرکشی کا اظہار ہے اور یہی زاویہ اس کی شاعری کا اہم ترین عنصر ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اکبر یا اقبال کی طرح محض غیر ملکی تہذیب یا حکومت کی مذمت نہیں کی بلکہ ان سے انتقام لینے کی ٹھانی ہے اور جہاں بس چلا ہے اپنے انتقام کے زہر کو دشمن کی رگوں میں اتارا ھے 

ن م راشد کی شاعری میں فرار کی وجوہات

راشد کی شاعری میں فرار کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں ایک وجہ تو وہ معاشرے کی ویرانی اور بنجر پن کو قرار دیتے ہیں یہ ویرانی اور بے آبادی سیاسی سماجی مذہبی اور معاشرتی جبر کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کی وجہ جنسی گھٹن کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے اس فرار  کی دوسری وجہ خیال اور تصور سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش ہے نا امیدی سوز و گداز  اداسی ان کی نظموں میں موجود ہے انجان راستوں جانی پہچانی منزلوں کی طرف جانے کے لیے ان کا دل ہمیشہ تڑپ رہتا ھے اس لیے وہ ہجرت کرنے کو بے تاب نظر آتے ہیں نظم وادی "پنہاں" میں لکھتے ھیں  

 عمر گزری ہے غلامی میں میری 

اس لیے اب تک میری پرواز میں ہے کوتائی 

 


زندگی میرے لیے بستر سنجاب و سبور

 اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری 

 ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے 

تو میری جان نہیں

 بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے

اور  تیرے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں میں

مجھ کو اب تک جستجو ہے 

زندگی کی تازہ جولان گاہ کی 

 کیسی بے زاری سی ہے

 زندگی کے  کہنہ آہنگ مسلسل سے مجھے 

سرزمین زیست کی افسردہ محفل سے مجھے

Post a Comment

0 Comments