اردو ادب کی اصطلاحات|| ادبی اصطلاحات کا تعارف |اردو کی ادبی اصطلاحات||ادبی اصطلاحات||

 اردو ادب کی اصطلاحات||ادبی اصطلاحات

اردو ادب کی اصطلاحات



اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات سے مزین ہے ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسعت کا حامل  ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست کو شامل اندراج کیا گیا ہےتاکہ ہم ان اصلاحات کی پہچان کے ساتھ اطلاق بھی یقینی بنا سکیں  ۔


علوم قواعد


1۔علمِ صرف 2۔ علمِ نحو 3۔ علمِ عروض 4۔علمِ شعر 5۔ علمِ قافیہ 6۔ علم معانی / علم بدیع 7۔علم بیان 8۔ علمِ لغت 9۔ علمِ اشتقاق 10 ۔ علمِ انشا 11 ۔ علمِ خط 12 ۔ علمِ تاریخ

علم بیان کی چار اقسام میں تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، مجاز مرسل کو شامل کیا گیا ہے۔


تخلیقی ادب


ادبی اصطلاحات میں تخلیقی ادب کو دو حصوں میں منقسم ہے۔  


 افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔

افسانوی ادب غیر افسانوی ادب

داستان ۔ ناول ۔ افسانہ ۔ ڈراما مقالہ ۔ مضمون ۔ تاریخ ۔ (سوانح/ سوانح حیات / آپ بیتی /خود نوشت سوانح )۔ خود نوشت ۔ (خاکہ/خاکہ نگاری) – سفر نامہ ۔ طنز و مزاح ۔ (مکتوب/خط)

(ڈائری/روزنامچہ) ۔ انشائیہ ۔ (تذکرہ / تذکرہ نگاری) ۔ دیباچہ، مراسلہ ۔ روزنامچہ ۔ تبصرہ ۔ لغت نویسی ۔ رپورتاژ

نظم و نثر


نثر شاعری


(کہانی /مختصر کہانی )

ڈراما ۔ ناول ۔ ناولیٹ

افسانہ ۔ افسانچہ ۔

( خاکہ/ خاکہ نگاری ) ۔

انشائیہ ۔ سفرنامہ ۔

(سوانح /سوانح حیات ) ۔

(داستان / قصہ )

فلم ۔ پیروڈی ۔تنقید ۔

(کالم/ بیانیہ / مقالہ /مضمون)

( حمد ۔ نعت/نعتیہ قصیدہ ۔ مدح ۔ قصیدہ ۔ منقبت ۔ مناجات ۔ سلام ۔ مرثیہ۔شخصی مرثیہ ۔ شاہنامہ ۔ رزمیہ/رزم نامہ )

( غزل ۔ مثنوی ۔جدید مثنوی ۔ نظم ۔ پابند نظم ۔ شہرآشوب ۔ واسوخت ۔ ریختی ۔ہجو ۔ تلمیح )

(ثلاثی ۔ رباعی ۔قطعہ ۔ مخمس ۔مسدس )

( ماہیا ۔ سہرا ۔ دوہا ۔ گیت ۔)


بیرونی زبانوں کی ہئیتیں

 (معریٰ نظم ۔ آزاد نظم ۔ سانیٹ ۔ ترائیلے ۔ ہائیکو ۔ نثری شاعری ۔)


نظم کی اقسام :


 موضوعاتی نظم ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم )


غزل کی اقسام :

( مردف غزل ، غیر مردف غزل )


غزل کے اجزائے ترکیبی : ( 1۔ ردیف 2۔ قافیہ 3۔ مطلع 4۔ مقطع)


نظم کو موضوعات کے حوالے سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں واسوخت۔قصیدہ۔ شہر آشوب۔مرثیہ۔ شامل ہیں


صنعتی شاعری اور صنعتوں کی اقسام ترميم


علم میں مختلف قسم کی صنعتوں پر بحث کی جاتی ہے  جوکہ  دو حصوں میں منقسم ہے۔


ا۔صنائع لفظی :۔

ب۔ صنائع معنوی:۔

صنائع لفظی صنائع معنوی

صنعتِ تجنیس ۔ صنعتِ تثلیث ۔ صنعتِ اشتقاق ۔ صنعتِ شبہِ اشتقاق ۔ (صنعتِ تکریر/صنعتِ تکرار )۔ صنعتِ تصحیف ۔

صنعتِ توسیم ۔ صنعتِ ایداع ۔(صنعتِ متتابع /استتباع) ۔(صنعتِ تزلزل /متزلزل) ۔(صنعتِ قلب /مقلوب ) ۔

صنعتِ ردا لعجز علی الصدر ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الارض ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الابتدا ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الحشو ۔صنعتِ مجنح

صنعتِ محاذ ۔ صنعتِ قطار العبیر ۔ صنعتِ تفریح ۔ صنعتِ قلب ۔ صنعتِ مقلوب ۔ صنعتِ مثلث ۔

صنعتِ ترصیع ۔صنعتِ ایہام۔صنعتِ مبادلہ الراسین ۔ صنعتِ تضمین المزدوج ۔ صنعتِ ترافق۔( صنعتِ نظم والنثر / سہل ممتنع)

(صنعتِ مربع/چہار در چہار) ۔صنعتِ مدور ۔ صنعتِ اقسام الثلثہ ۔ صنعتِ سیاق الاعداد ۔صنعتِ مسمط ۔ صنعتِ توشیح ۔

صنعتِ ترصیح ۔صنعتِ متلون ۔ صنعتِ مخذف ۔ (صنعتِ ذوالقوافی/ ذوالقافتین)۔ صنعتِ مشجر ۔(صنعتِ لزوم ما لا یلزم )۔

(صنعتِ حذف / قطع الحروف) ۔(صنعتِ عاطلہ / مہملہ / غیر منقوطہ) ۔ صنعتِ منقوطہ ۔ صنعتِ خیفا ۔ صنعتِ رقطا ۔

صنعتِ فوق النقاط ۔ صنعتِ تحت النقاط ۔ صنعتِ واصل الشفتین۔صنعتِ واسع الشفتین ۔ صنعتِ جامع الحروف ۔

صنعتِ مخلوط ۔ صنعتِ منشاری ۔ صنعتِ مقطع یا غیر موصل ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ اربعہ الحروف ۔ صنعتِ معجزہ الاستہ والشفا ۔

صنعتِ متحمل المعانی ۔ صنعتِ معرب ۔صنعتِ افراد ۔ صنعتِ موصل ۔ صنعتِ اظہارِ مضمر ۔ صنعتِ معما ۔ ( صنعتِ نغز / چیستاں / پہیلی )

صنعتِ تابع مہمل ۔ صنعتِ اشارہ ۔ صنعتِ تلمیح ۔

(صنعتِ تضاد/ طباق ) ۔ صنعتِ تذبیح ۔ (صنعتِ ایہام / تضاد )۔ ( صنعتِ ایہام / توریہ ) ۔ (صنعتِ استباح / مدح الموجہ )

(صنعتِ مراۃ النظیر /تناسب) ۔ ( صنعتِ تنسیق الصفات )۔ صنعتِ براعت الاستہلال ۔ صنعتِ تشابہ الاطراف ۔

صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ اطراد ۔ صنعتِ ارصاد ۔ صنعتِ تاکید المدح بما یشبہ الذم ۔ صنعتِ تاکید الذم بما یشبہ المدح ۔

صنعتِ الحاق النجزی بالکلی ۔ صنعتِ تجرید ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ متحمل الضدین ۔ صنعتِ ہجوِ ملیح ۔ صنعتِ استدراک ۔

صنعتِ تجاھلِ عارفانہ ۔ صنعتِ لف و نشر ۔ صنعتِ جمع ۔صنعتِ تفریق ۔ صنعتِ تقسیم ۔ صنعتِ جمع و تفریق ۔

صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم ۔ صنعتِ رجوع ۔ صنعتِ حسنِ تعلیل ۔ صنعتِ مشاکلہ ۔ صنعتِ عکس ۔

صنعتِ قول بالموجب ۔ صنعتِ مذہبِ کلامی ۔ صنعتِ مذہبِ فقہی ۔ صنعتِ ادماج ۔ صنعتِ مبالغہ ۔ صنعتِ تعجب ۔

صنعتِ جامع اللسانین ۔ صنعتِ ذو رویتین ۔ صنعتِ ذو ثلثہ ۔ صنعتِ ترجمہ اللفظ ۔ صنعتِ ابداع ۔ صنعتِ تصلیف

صنعتِ صلب و ایجاد ۔ صنعتِ کلامِ جامع ۔ صنعتِ ایرادالمثل / ارسال المثل ۔ صنعتِ استخدام ۔

صنعتِ الہزال الذی یراد بہ الجد / ہزل ۔ صنعتِ تلمیح ۔ صنعتِ نسبت ۔ صنعتِ اتفاق / حسنِ مقطع ۔ صنعتِ اتساع

صنعتِ تضاد ۔صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ تجنیس ۔

1۔صنعتِ اہمال 2۔ صنعتِ لزوم مالایلزم 3۔صنعتِ ہما 4۔ صنعتِ ابہام

5۔ صنعتِ مُبالغہ 6۔صنعتِ حُسن التعلیل 7۔صنعتِ طباق 8۔صنعتِ مراعات النظیر

9۔ صنعتِ لف و نشر 10۔صنعتِ مہملہ 11۔صنعتِ تلمیح 12۔صنعتِ معاد

13۔صنعت رجوع 14۔صنعتِ ترصیح 15۔صنعتِ تنسق الصفات 16۔صنعتِ سیاق اعداد

17۔صنعتِ ذو قافیتین و ذو القوافی 18۔صنعتِ جمعیت الفاظ 19۔صنعتِ تضاد 20۔صنعتِ ضرب المَثَل

صنعت توشیع 

اردوتنقید میں مستعمل دیگر اصطلاحات ترميم

آزاد تلازمہِ خیال ۔ آفاقیت ۔ آہنگ ۔ (آزاد نظم / فری ورس )ابتذال ۔ ابدیت ۔ اجتماعیت ۔ اجتماعی لاشعور ۔(اجمال / اختصار / ایجاز ) ۔ ادب برائے ادب ۔ ادب برائے زندگی ۔ ادب لطیف ۔ ( ارتفاع / عروج / بلندی ) ۔ استعارہ۔

اشتراکیت ۔اشتقاق ۔اشکال ۔ اصلیت /واقعیت ) ۔ انفرادیت ۔ (ایہام/ توریہ) ۔ ایہام تناسب ۔ ایہام گوئ ۔

بدیع ۔ (برجستہ /برجستگی) ۔ (بلینک ورس / نظم معری) ۔ بیت الغزل۔ (بورژوا / پرولتاریہ) ۔ بورژوازی۔ پرولتاریہ ۔بیان(علم) ۔ پلاٹ ۔ ( پیکر/ پیکر تراشی ) ۔ (تجاہل عارفانہ / تجنیس) ۔ تحلیلِ نفسی ۔ تخیل ۔ ترقی پسند ادبی تحریک

ترقی پسندی ۔ تخلص ۔ تلمیح۔ تشبیب ۔ تحت اللفظ ۔تشبیہ۔ تزکیہ Catharsis ۔ تشبیہ ۔ (تضاد / طباق ) ۔ تضمین۔تعقید ۔ تغزل ۔ تفحص الفاظ ۔ تقریظ ۔ تکنیک۔تلمیح ۔تمثیل ۔ تنافر ۔توالی اضافات ۔ توجیہ ۔ ٹکسالی زبان

جدت ادا ۔ جدلیاتی مادیت ۔ جمالیات ۔ (جوش/جوش بیان) ۔ (چیستان / معما) ۔ حسن تعلیل ۔ (حشو/ زوائد) ۔ (حقیقت پسندی / حقیقت نگاری) ۔ (فطرت پسندی / فطرت نگاری) ۔ خارجیت ۔

داخلیت۔ دبستان ۔ ربط ۔ رجعت پسندی ۔ رزمیہ ۔(رعایت لفظی / مناسبت لفظی) ۔ روایت ۔ رومانویت ۔ردیف ۔ روزمرہ ۔ ریختی ۔ زٹل ۔ زمین

سادگی ۔ سراپا ۔ماورائے حقیقت پسندی ۔ سرقہ ۔سلاست۔ سلام ۔ سوز و گداز۔ سوقیانہ ۔ سہلِ ممتنع ۔ شاعری ۔ شعر ۔ شعور کی رو ۔ ( شکوہِ الفاظ / شوکتِ الفاظ ) ۔ شہر آشوب ۔

صنعت ۔ ( صنمیات / اساطیر/ دیومالا) ۔ ضرب المثل ۔ ضرب‌المثل ۔ضعفِ تالیف ۔ضلع جگت ۔ طبقاتی کشمکش ۔ ظرافت ۔ بذلہ ۔ پند ۔طنز ۔ مزاح ۔ ہزل ۔

عقلیت ۔ علامت ۔علامتیت ۔ عملیت ۔ ( عینیت / تصوریت / مثالیت ) ۔ ( غرابت / غریب ) ۔ (فاشزم / فسطائیت ) ۔ فحاشی۔ فرد ۔ فصاحت ۔ بلاغت ۔ قافیہ ۔قولِ محال ۔ قافیہ ۔

کردار ۔ (کلاسک/کلاسیک)۔کلاسیکیت ۔ کنایہ ۔ کنایہ ۔ گرہ ۔ گلدستہ۔ گریز۔لاشعور ۔لف و نشر ۔ لہجہ ۔مادیت ۔ مبالغہ ۔ مجاز ۔ مجازِ مرسل ۔مطلع ۔مقطع ۔مصرع ۔محاکات ۔ محاورہ ۔ مراعات النظیر ۔ مزاح ۔ (مضمون / مضمون آفزینی)

معاملہ بندی ۔ علمِ معانی ۔ ( معنی / معنی آفزینی ) ۔ ( مہملہ / مہملا) ۔ مجاز مرسل ۔ محاورہ ۔( موضوع )

نازک خیالی ۔ نثرِ عا ری ۔ نثرِ مرجز ۔ نثرِ مسجع ۔ نثرِ مقفی ۔نشاۃ الثانیہ ۔ نعت ۔( نقطہِ عروج / منتہی ) ۔ نوٹنکی ۔ نوحہ ۔ نیچرل شاعری ۔ واسوخت ۔ واقعہ نگاری ۔ وجدان ۔ وحدتِ تاثر ۔ وحدتِ ثلاثہ ۔ ہزل ۔ہیرو-,,,,,,,,,,

الفاظ کے اخلاقی انحطاط کا نفسیاتی پس منظر

               پروفیسر غازی ولی الدین


زبان کسی قوم کی اخلاقی اقدار کو ظاہر کرتی ہیں۔ انسانی زندگی کے ساتھ زبان بھی عُلُوّ مرتبت پر فائز اور اخلاقی انحطاط کے زیر اثر رہتی ہے۔ الفاظ اخلاقی اور غیر اخلاقی حقائق کےعینی گواہ  ہوتے ہیں  جو انسان کے اخلاقی انحطاط اور عروج کی داستان کی کہانی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس طرح انسان عروج و زوال کی منزلیں پار کرتا ہے اُسی طرح الفاظ بھی ہمسفر رہتے ہیں۔

الفاظ و محاورات نے  اپنے اندر سماجی رس بھرے  ہوتے ہیں  کیوں کہ یہ تو ہمیشہ تہذیب کا جھنڈ ا اور تاریخ کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اکثر الفاظ و محاورات اور کہاوتیں  سماجی اور تہذیبی واقعات کی ہی دین ہوتی ہیں۔ قوموں  کی ثقافت، معاشرت، تاریخ، رسوم و رواج، ترقی اور تنزّل انہی الفاظ اور ان کے استعمال ہی کی شرح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

زبان کے اخلاقی تنزّل و انحطاط میں  برصغیر کے طبقاتی پس منظر کو کبھی فراموش نہیں  کیاجا سکتا۔ پیٹ کے مسائل نے پیشوں  کو جنم دیا تو دوسری طرف پیشوں  نے عوامی روّیہ کے الفاظ جنم دیئے۔ انہی الفاظ سے محاورات اور کہاوتیں بنیں  جو اس وقت کے معاشرے کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ اُمراء اور حکمران طبقے کی خوش آمد اور منت و سماجت کے لئے الفاظ وضع کیے گئے۔ ذات پات، اونچ نیچ اور متعصبانہ رویوں  کے اظہار کے لئے بھی اردو زبان و ادب کی لغت کو ’’مالا مال‘‘ کیا گیا۔ طاقت ور اور کم زور کو مدّ مقابل لا کر حفظِ مراتب، نفرت کے اظہار اور غیبت کی عادت جیسے رذیل رویّے تخلیق کیے گئے۔ حق بات کہنے کی جرات کے فقدان کے پیشِ نظر رمز و ایماء اور اشاروں  کنایوں  پر مبنی ذومعنی الفاظ و محاورات کا استعمال انسان کی نفسیاتی، معاشرتی اور اخلاقی پستی کی واضح دلیل ہے۔

زبان کے اخلاقی انحطاط کے پس منظر میں  ہمیں  بھوک، ننگ، افلاس، ناداری، کمزوری، جہالت، نفرت و حقارت اور ایسی کئی کہانیاں  اور جذبات دکھائی دیں گے۔ معاشی ناہمواری نے غریب اور مفلس کو مجبور کر دیا کہ وہ امیر طبقے کے کمّی بنیں  اور نمک حلالی کرنے کے لئے ان کی تفریح طبع کے لئے اُوٹ پٹانگ باتیں  اور اخلاق سے گری حرکتیں  کریں۔ کئی مستعمل الفاظ و محاورات ان واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ مجبور و مقہور عوام بے بس تھے۔ الفاظ کی حد تک نفرت و انتقام کے جذبات رکھتے اور اپنی بھڑاس نفرت کے خمیر سے بنے محاورات کے ذریعے نکالتے تھے۔

بارک اللہ : اس کا لفظی معنی ہے اللہ برکت دے،

لیکن اس کا استعمال کسی شخص کی مذّمت اور ہجو کے لئے بھی ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک دعا ہے۔ بارک اللہ کی ترکیب شعائرِ اسلام میں  اس طرح شامل ہے جیسے السّلام علیکم، الحمدللہ، ماشا ء اللہ، سبحان اللہ اور ان شاء اللہ وغیرہ۔ ہجو اور مذّمت کے معنی میں  اس کا استعمال یقیناً شعائرِ اسلام کی توہین کے زمرہ میں  آتا ہے۔

بسم اللہ ہی غلط : اس سے مراد ابتدا ہی غلط ہو جانا یا چھوٹتے ہی غلطی کا ارتکاب کرنا ہے۔

اس محاورے کے پس منظر میں  انسانی اخلاقی انحطاط، ذہنی خباثت اور دینِ اسلام کے خلاف سازش واضح اور عیاں  ہے۔

جنم جنم کا ساتھ دینا : اس محاورے کا مفہوم ہے وفاداری کو مرتبۂ کمال تک پہنچانا۔

لیکن محاورے کے الفاظ اور اس کی ترکیب میں  آواگون کے مذہبی نظریے کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ دراصل یہ عقیدۂ تناسخ اور حُلولِ باری کا اظہار ہے۔ آواگون کو Incarnationاور Transmigration of Soulبھی کہتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریۂ حیات و ممات اور آخرت کی ضد ہے۔ اردو زبان و ادب میں  اس کے استعمال سے ایک مشرکانہ اور کافرانہ نظریے کی ترویج ہوتی ہے جس کا عام اردو بولنے والے ادراک نہیں  رکھتے۔

حِکمتی : اس سے مراد چالاک، مکار اور عیّار شخص ہے۔

یہ حکمت جیسے مقدس لفظ کی توہین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ مَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً (۲۱) (اور جسے حکمت ملی، اسے حقیقت میں  خیر کثیر یعنی بڑی دولت مل گئی )

خدمتی : اس سے مراد نوکر چاکر ہے۔

اس لفظ کے مفہوم کے تعیّن اور استعمال کے پس منظر میں  ذات پات، اونچ نیچ اور طبقاتی سوچ کارفرما ہے۔ اسلام کی نظر میں  خدمت کرنے والے انسان کی عظمت مسلمہ ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے۔ سَیّدُِ القَومِ خَادِمھُم (۲۲)(قوم کا سردار درحقیقت اپنی قوم کا خدمت گار ہی ہوتا ہے )

داڑھی نوچ ڈالنا : ذلیل و رسوا کرنا۔

کسی کو ذلیل کرنے اور دھوکا دینے کے لئے داڑھی پر ہاتھ صاف کرنا اور اُسے نجاست سے آلودہ کرنا معاشرتی اخلاقی پستی کا مظہر ہے۔ داڑھی جو شعائرِ اسلام میں  شامل اور ایمان کی علامت ہے، کس توہین آمیزطریقہ سے اسے محاوروں  میں  استعمال کر کے اردو زبان و ادب کو ’’ثروت مند‘‘ اور ’’مزیّن ‘‘ کیا گیا ہے۔

رِیشِ قاضی : لفظی معنی ہے قاضی کی داڑھی۔

لیکن اصطلاحاً شراب کی بوتل کے ڈاٹ (ڈھکن) اور بھنگ چھاننے کے کپڑے کو کہا جاتا ہے۔

ریِشِ بابا : لفظی معنی ہے بابا کی داڑھی۔

لیکن اصطلاحاً شراب بنانے کے لئے انگور کی ایک قسم کو کہا جاتا ہے۔

شیخ چِلّی : بے وقوف، مسخرا اور احمق۔

شیخی باز : مغرور، ڈینگیں  مارنے والا اور گھمنڈ کرنے والا۔

شیخی بگھارنا : بڑائی ظاہر کرنا، نمود و نمائش کرنا۔

شیخی جھاڑنا : نیچا دکھانا۔

شیخی مارنا : اِترانا

یہ الفاظ و محاورات شیخ کی نسبت سے تشکیل پائے ہیں۔ عربی میں  شیخ کا معنی علم و عُمر اور مرتبہ کے اعتبار سے بلند شخص کے ہیں۔ گویا شیخ جو عزت و احترام اور تقدس کا حامل لفظ ہے، اُسے بے وقوفی، تکبرّ، بُرائی، عزّت و آبرو کو پامال کرنے، نمود و نمائش اور غرور جیسے خصائل سے متصف کیا گیا ہے۔ معاشروں  کی خفّتِ عقل اور ضُعفِ ایمان کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس مقدس لفظ کو ذلیل حرکتِ انسانی سے وابستہ کر دیا گیا۔

صَفاًّ صَفاَّ : بے نام و نشان، منہدم اور ویران

صَفاًّ صَفاّ کرناَ : نیست و نابود کرنا، استیصال کرنا۔

صَفاًّ صَفاَّ ہونا : ویران ہونا، تہس نہس ہونا۔

صَفاًّ صَفاّ کی ترکیب قرآنی آیت کا حصّہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَجَاء رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۲۳) (اور تمہارا رب جلوہ فرما ہو گا اس حال میں  کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں  گے )۔

صَفاًّ صَفاّ کا ترجمہ صف در صف اور منظم ہے جب کہ محاورے میں  اس کا بالکل الٹ معنی کر دیا گیا ہے۔ ان محاورات کی تشکیل کے پس منظر میں  جہاں  قرآنی الفاظ کی تضحیک ہے وہاں  اسلام کے اُصولِ عمل، نظم و ضبط اور ڈسپلن پر زد پڑتی ہے۔

صلوات سنانا : کوسنا، دشنام دینا، بُرا بھلا کہنا۔

علیک سلیک : مراد ہے معمولی ملاقات، محض جان پہچان اور واجبی شناسائی۔

السلام علیکم جو امنِ عالم کے قیام کے لئے اسلام کا منشور ہے، ایک دوسرے سے پیار، محبت اور خلوص میں  اضافے کا موجب ہے، اُسے لفظی طور پر بگاڑ کر انتہائی سطحی معنوں  میں  استعمال کیا گیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments