You can search here about the
biography of Majeed Amjad in Urdu,
All writings of Majeed Amjad,
Majeed Amjad profile&biography
Because
Majeed Amjad History in Urdu or Majeed Amjad Introduction in Urdu is as follows .
مجید امجد کا خاندان شروع ہی سے علم ادب کا وارث چلا آ رہا ہے ان کے اجداد میں مولوی نور احمد اپنے زمانہ کے عالم تھے اسی علمی فضیلت کی وجہ سے جھنگ کے امراء نے ان کو 1810 میں چنیوٹ سے مستقل طور پر جھنگ میں آباد ہونے پر آمادہ کیا موصوف نے اپنے شہر کی مسند سنبھالی لیکن اس خاندان کے علم و فضل کی شہرت میاں غلام قاسم کے صاحبزادہ میاں نور محمد کی وجہ سے ہوئی میاں نور محمد کی وفات 90 سال کی عمر میں 1947 میں ہوئی اپنے عہد کے بے مثال عالم محدث اور ماہر طبیب تھے میاں نور محمد پہلے جامعہ مسجد کوٹ روڈ جھنگ صدر کی امام تھے پھر جامع مسجد قطب الدین میں اس منصب پر فیض ہوۓ اور زندگی کے آخری دنوں تک تین انجام دیتے رہے اپنے رہائشی مکان کا ایک حصہ مسجد اور مکتب کے لیے وقف کر دیا تھا میاں نور محمد مجید امجد کے نانا تھے
مجید امجد 1914 میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام علی محمد آج محکمہ تعلیم میں ملازم تھے مجید امجد کی عمر چھ ماہ تھی کے ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا یہ ان کی زندگی کا پہلا حادثہ تھا پھر اس حادثے کی کرنا کیوں میں مجید امجد کی پرورش ہوئی ابھی تین برس کے تھے ان کے والد نے دوسری شادی کر لی سوتیلی ماں کے سوتیلے پن نے ان کے گھر پر سکون ماحول سے محروم کردیا کیونکہ میاں نور محمد کو اپنی بیٹی سے بہت محبت تھی اس لیے انہوں نے اپنے نواسے کو اپنی گود میں لے لیا اور پھر مجید امجد نانا کے علمی ماحول میں پروان چڑھی میاں نور محمد نجوم حدیث فقہ کی مہر تھے اور روزانہ اہم علم کی مجلس برپا ہوئی تھی مجید امجد ان محفلوں میں شامل ہوتے اور ذہنی بالیدگی حاصل کرتے پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید گلستان بوستان، پندھ نامہ عطار پڑھ چکے تھے پھر سکول میں داخل ہوئے صبح اسکول میں پڑھتے اور پچھلے پہر اپنے نانا سے عربی فارسی صرف اور نحو پڑھا کرتے تھے امجد نے 1930 اسلامی اسکول سے میٹرک پاس کیا انیس سو پینتیس میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے اور انیس سو چونتیس میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے پاس کیا طالب علمی کے زمانے ہی سے شعرو شاعری کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ان کے ماموں میاں منظور علی بڑے اچھے تھے سکول میں ٹیچر تھے ان دنوں جھنگ میں محکمہ پبلسٹی آفیسر تعینات ہوئے محکمہ عام اہم موضوعات میں ڈرامہ اسٹیج کرتا تھا چنانچہ امجد نے ڈرامے( امتیاز علی تاج کے جو ان دنوں مشہور ہونے لگے تھے )سننے شروع کردیے بعد میں ہفت روزہ عروج کے ایڈیٹر مقرر ہوئے انہی دنوں ہندوں کا ایک ہفتہ وار اخبار جنگ سیال کے نام شائع ہوتا تھا اور جھنگ سیال میں مسائل پر سوچنے اور لکھنے کا انداز جدا تھا اگر یہ کہا جائے کہ مجید امجد نے بحیثیت اخبار نویس علاقے کے مسلمانوں کو آزادی اور قومیت کا شعور تو غلط نہ ہوگا
اخبارات کے صفحات اول پر قومی نظمیں شائع کی جاتی تھی مجید امجد عروج کے لیے نظم میں لکھا کرتے تھے انیس سو انتیس میں مجید امجد نے حضرت عمر کا خط دریائے نیل کے نام سے شائع ہوئی یہ پہلی نظم تھی جس نے ان کی شہرت کو پورے ہندوستان کے کونے کونے تک پہنچا دیا
مجید امجد بھی ایک جرمن خاتون ”شالاط“ کی محبت کے جذبات میں خود کو سر شار ہونے سے نہ روک سکے ۔ شالاط جوکہ ایک ٹورسٹ جرمن خاتون تھی۔ یہ 1958کا واقعہ ہے جب شالاط نے ساہیوال میں قیام کیا اس خاتون کو عالمی ادبیات ،فنون لطیفہ اور آثار قدیمہ سے گہری دل چسپی تھی وہ ساہیوال کے قریب واقع ہڑپہ کے کھنڈرات کا نظارہ کرنے آئی تھی ۔اس موقع پر اس کی ملاقات مجید امجد سے ہوئی ۔ مجید امجد کی شاعری اس کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر گئی ۔مجید امجد اور شالاط کی یہ رفاقت 83 دنوں پر محیط ہے مگر اس عرصے میں وہ دل کی بات لبوں پر لانے سے قاصر رہے ۔ لفظ سوجھتے تو معانی کی بغاوت سد سکندری بن کر اظہار کی راہ میں حائل ہو جاتی ۔ مجید امجد نے شالاط کو کوئٹہ تک پہنچایا اور اسےاس آس پر خداحافظ کہا کہ شاید وہ لوٹ آئیں گیں پھر محبت کا اظہار کروں گا لیکن شالاط نے تو جا کر مستقل جدائی اختیار کر لی واپس آنے کا نام نہ لیا تقدیر نے مجید امجد کی قسمت میں جدائی لکھ دی ۔تقدیر کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں انسانی تدبیر کسی طور بھی ان کو بدل نہیں سکتی ۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہر آن انسانی تدابیر کی دھجیاں نہ اڑا دے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے ۔ شالاط کی مستقل جدائی نے مجیدامجد کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔
ناصر شہزاد نے جب اس خوبصورت عورت کا دیدار کیا تھا اور امجد کے انتخاب کی داد دئے بغیر نہ رہ سکے
وہ لڑکی خاصی صبیح اور سجاوٹ کا مرقع تھی، گہری اور ٹھہری ہوئی ، صاف اور شفاف جھیلوں کی جیسی ہلکی ہلکی، نیلی اور شرابی آنکھیں، اٹھتا ہوا قد جو خاصی کشش رکھتا تھا۔ خوش پوشاک اور بن بناوٹ میں مدھ ماک" تیراسی (83) دن قیام کے بعد جب وہ اس شہر کو چھوڑ کر جانے لگی تو مجید امجد کوئٹہ تک اس کے ساتھ گئے۔ اس کے لئے چوڑیاں بھی خریدیں مگر اس تحفے کو پیش کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ واپسی پر چوڑیاں صابر کنجاہی کے حوالے کردیں کہ کسی اپنی سہیلی کو دے دینا۔ شالاط کی ہمیشہ کی جدائی نے مجید امجد کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔
ان کی شاعری پر بھی اس کا واضح اثر محسوس ہوتا ہے مجید امجد کی نظم جو 22 نومبر 1958کو شالاط کی جدائی کے موقع پر کوئٹہ سے واپسی پر لکھی گئی ایک حساس شاعر کی شاعری انکے قلبی کیفیات کا مکمل اظہار رکھتی ہےس1941 میں مجید امجد روس سے علیحدگی اختیار کر لی
1942 میں محکمہ خوراک میں سپیکر کے عہدے پر تقرر ہوا لیل پور گوجرہ سرگودھا لاہور وغیرہ میں تعینات رہے پھر آپ کا تکرار ساہیوال میں ہوا وہاں جاکر ادبی محفلوں کی جانب نے منیرنیازی کے ساتھ رنگوں مجید امجد ہی مرتب کرتے رہے محکمہ ترقی دے کر اے ایف سی بنا دیا انیس سو بہتر میں ایف سی ہی ریٹائر ہوگئے ان کا ساہیوال میں اس ایک معمولی کوارٹر تھا جس میں آم کا درخت اور اس کے دس بجے مرحوم نے خود لگائے تھے کتابیں اخبارات احباب کے خطوط تین جوڑے لباس ایک عینک ایک ٹارچ ایک کلائی کی گھڑی بس یہی کچھ ان کا اثاثہ تھا ملازمت کے دوران ان کو چار سو روپے تنخواہ ملتی تھی ہر ماہ تنخواہ لینے کے بعد دس بارہ منی آرڈر ان کی دوسروں کو بھجواتے رہے یہ رقم کے لوگوں کو بھجوا دیتے تھے شاید راز ہی رہے 11 مئی 1974 کو ساہیوال میں ان کا انتقال ہوا اور ان کی آبائی شہر جھنگ میں دفن کیا گیا
0 Comments