اسلام میں شاعری کی حیثیت اور شعر کے متعلقات پر ایک تحقیقی نظر کا جائزہ
شاعری اور شعر کے متعلقات پرمحترم سرکار پیرسید نصیر الدین نصیر گیلانی کا ایک قیمتی تحقیقی رسالہ اہل ادب کی نذر میں پیش خدمت ہے
حصہ اول
شاعری سے متعلق بعض لوگ عجیب قسم کی رائے رکھتے ہیں، جو خود تو اچھا شعر کہہ لیتے ہیں، ان کے نزدیک یہ قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے، مگر جو شعر وشاعری نہیں کر سکتے، وہ اس کے خلاف طرح طرح کی باتیں بناتے اور تمسخر تک اڑاتے ہیں۔ آئیے آج ہم دیکھیں کہ کلام مطلق بہ صورتِ نثر کیا چیز ہے اور کلامِ منظوم یعنی شعر و شاعری کی ادب میں کیا حیثیت ہے۔ ۔
موزوں کلام کو اصطلاح عام میں شعر کہتے ہیں۔ الفاظ اگر مخصوص ردم اور وزن پر مشتمل ہوں تو وہ موزوں کلام کہلاۓ جانے کے حقدار ہیں ۔ شعر کا لغوی معنی " جاننا" ہے اور اصطلاح عام میں تخیل پر مشتمل کلام اگر موزوں بھی ہو تو وہ شعر کے زمرے میں آتا ہے ۔
ایک دوسری تعریف کے مطابق ایسا جمہور کلامِ جو موزوں ہونے کے ساتھ اگرمقفی بھی ہو تو اسے شعر کہتے ہیں۔ تو گویا شعر کی تعریف کے مطابق شعر کے چار اجزاء ٹھہرے ہیں جن میں
نمبر ۱ کلام،
نمبر ۲ تخیل،
نمبر ۳ وزن،
نمبر ۴ قافیہ (یعنی اشعار کے آخری حروف کا ایک جیسا ہونا)
پھر شعر کے مختلف اوزان ہیں، جنہیں علمِ عروض کی زبان میں بحر شمار کیا جاتا ہے۔
ردھم اور لے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، ردھم کے تسلسل کو ہم دھن کہتے ہیں، دھن ماتروں کی مجموعی صورت کا نام ہے، جسے عربی میں ضرب اور اصطلاحِ موسیقی میں ماترہ شمار کیا جاتا ہے۔ پھر ماتروں کے حساب اور تعین کے مطابق لے اور تال کا تعیین کیا جاتا ہے۔
موسیقی اور شاعری کا آپس میں ازل سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیوں کہ موسیقی میں لے سر سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ چناں چہ ماہرین موسیقی کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بے سرا منظور مگر بے گرا یعنی بے لے نا منظور۔ اس کی وجہ اس طرح سے ہے کہ جسے ہم بے سرا کہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ لے کا پکا ہو۔ چوں کہ سر کا زیادہ ردھم سماعت کو ذوق بخشتا ہے۔ اس لیے اساتذہ موسیقی کے نزدیک بے سرے انسان کو تو قبولیت مل سکتی ہے، مگر کبھی بھی بے لے کو فوقیت نہیں مل سکتی یہی لے(ردم) کلامِ موزوں اور غیر موزوں میں خطِ امتیاز کھینچتی ہے، گو یا شعر وہ ہوگا جس میں ردم اور وزن ہوگا۔ ماہرین عروضی اسی کو شعر کہتے ہیں۔ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ ہر گلوکار ایک ماہر لے کار بھی ہو، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ محض وزن میں کلام کر لینے والا۔ یعنی شاعر، افکار اور تخیل کے اعتبار سے بھی اتنا ہی بلند اور ماہر ہو۔
خوش آوازی اور چیز ہے اور لے کاری بالکل اس سے مختلف چیز۔ ایک خوش آواز انسان جس قدر اپنی آواز کا جادو جگا سکتا ہے، اسی قدر اگر وہ لے کار بھی ہو تو اسے نور علی نور والا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص وزن میں شعر کہہ سکنے کی صلاحیت کے ساتھ اگر بلندی تخیل، زبان و بیان اور رعایتِ لفظی پھر دوسرے محاسنِ شعری پر بھی عبور اور کمال قدرت رکھتا ہو تو دنیائے فن میں ایسے باکمال اور باذوق انسان کو کلاسیکی شاعر یا ایسی شاعری کو کلاسیکل شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کلاسیکل شعراء میں خواجہ حافظ شیرازی، امیر خسرودہلوی، مولانا جامی، مولانا رومی، مرزا عبدالقادر بیدل اور علامہ اقبال کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔
اردو میں میر تقی میر ، غالب، مصحفی، داغ، ابراہیم، ذوق، میر انیس وغیرہ کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔ عربی ادب میں زمانے جاہلیت کے چند شاعر، جنہیں کلاسیکل ادب کا استاد کہا جا سکتا ہے۔ ان میں متنبی، حسان بن ثابت، صاحبان سعبہ معلقہ، لبید وغیرہم شامل ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل ردم یعنی لے کی اہمیت کے بارے میں اگر غور کیا جائے تو کائنات کی ہر شے ایک خاص ردم سے دوچار نظر آتی ہے۔ لے کی حقیقت اور اہمیت سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی دو چار آیات سے استدلال پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوا۔
ترجمہ: اور سورج چلتا ہے اپنی قرار گاہ کے لیے، یہ حکم ہے زبردست علم والے
ترجمہ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ پھر ہو گیا،
ترجمہ سورج کو(حق) نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے اور ہر ایک گھیرے میں تیر رہا ہے۔
ترجمہ: بے شک ہم نے ہر چیز ایک اندازے سے پیدا کی۔
ترجمہ: اور جب تارے جھڑ پڑیں
واذا السماء کشطت
ترجمہ: اور جب آسمان جگہ سے کھینچ لیا جائے
ان آیات سے یہ نتیجہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ خالقِ ارض و سماء نے کائنات کی ہر چیز کو ایک مربوط و منضبط نظام کے تحت پیدا کیا اور سنبھالا ہوا ہے۔ چناں چہ اسی ارتباط و ترتیب کے حوالے سے ہی کلام، سر اور لے کی موزونیت پر دلائل دئیے جاتے ہیں ۔ جب ہر جرم فلکی اپنے مقررہ حدود میں متعین کردہ وقت میں حر کت کر رہا ہے اور حرکت کرنے کے لیے رفتار ضروری ہے تو رفتار لے کے بغیر کسی بھی صورت قائم نہیں رہ سکتی۔
ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنایا اور چاند کو چمکتا اور اس کے لیے منزلیں ٹھہرائیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جانو، اللہ نے اسے نہ بنایا مگر حق، نشانیاں مفصل بیان فرماتا ہے علم والوں کے لیے
کل فی فلک یسبحون سے پتا چلتا ہے کہ ہر اجرام فلکی اپنے متعین کردہ محور میں تیر رہا ہے اور تیرنے کے لیے رفتار ضروری ہے تو رفتار لے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ آیۂ والنجوم انکدرت میں بھی انہی ستاروں کے بے چال ہونے اور بکھر جانے کا ذکر ہے جس کے معنی یہ ہوئے جب ستارے اپنی مقررہ چال چھوڑ دیں گے یعنی "بے لے" کر دیے جائیں گے تو ان کے بے چال اور بے لے ہوجانے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اختتام سلسلۂ کائنات اور آغازِ لمحۂ قیامت۔ تیسری آیت میں فرمایا:
ہم نے ہر شے کو ایک مقررہ مقدار میں پیدا کیا۔ مقدار سے مراد اس کا جسم مادی بھی ہے اور اس کا مزاج رفتار بھی اور رفتار میں لے کا وجود نظر آتا ہے ۔
ان آیات میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ردم یعنی لے کائنات کی عجیب اساس بھی ہے۔ جس دن لے کا یہ خوبصورت مربوط نظام بے چال کر دیا جائے گا تو کائنات کی محسوس ہونے والی یہ خوبصورت حقیقت ایک افسانے کا روپ دھار لیتی ہے پھر بقول علامہ سیماب
جس دن ہم ساز کہتے کہتے رک گئے اس دن یہ عہد بے عالم ہو جاۓ گا
اس طرح کی بات کو ایک نہایت الگ اور خوبصورت انداز میں برج نرائن چکبست ہندو شاعر نے بھی واضح کیا ہے
کیا ہے وہ کہتا ہے کہ
زندگی تو عناصر کی ترتیبی کا نام ہے اور موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
یعنی کائنات کی ہر شے جن عناصرِ تخلیقہ سے مرکب ہے( جیسے کہ انسان عناصرِ اربعہ، آگ، مٹی ہوا اور پانی) ان میں اگر ترتیب قائم رہے یہی قیام و ظہورِ ترتیب زندگی کہلاتا ہے اگر ان کی ترکیب بکھر جائے اور پریشان ہوجائے،تو اسی کو موت کہتے ہیں۔ گویا نظامِ کائنات میں کنٹرول، ترتیب اور ضبط اسی کا نام حیات ہے، ثابت ہوا کہ بقائے کائنات میں بھی اللہ تعالیٰ نے ترتیب اور انضباط کا لحاظ فرمایا ہے، اسی ترتیب کے کلام اور آواز کی مناسبت ملحوظ رکھنے کو ردم اور شعر کلام موزوں کو شمار کرتے ہیں۔
معروف زمانہ امام غزالیؒ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف احیاء العلوم میں جہاں موسیقی پر سیر حاصل بحث کی وہاں پر خوش آوازی اور لحن کے علاوہ ردم اور لے کی اہمیت پر بھی عقلی دلائل پیش کیے ہیں ایک دلیل یہ بھی دی کہ لے کے اندر اگر ذوق اور کیفیتِ انہماک نہ ہو تو روتا ہوا شیر خوار بچہ گھنٹی کی آوازِ مسلسل سن کر خاموش کیوں ہوجاتا ہے، جھولے کی مخصوص رفتار جب ایک مسلسل لے کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو بچہ اس کی خنک لوریوں میں جھول کر رونا بند کر دیتا ہے۔ اس قسم کی عام فہم مثالوں سے لے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔
یہی لے شعر کا بنیادی وصف ہے اس کے بغیر شعر کو شعر نہیں کہا جاسکتا۔دریاؤں کا بہاؤ، سمندر کا تلاطم، ہواؤں کا خرام، آوازوں کا زیر و بم، زمین اورفضاء میں اڑنے والے پرندوں اور جہازوں کی اڑان اور اجرام فلکی کی مختلف چالیں، درحقیقت اسی لے کی مرہون منت ہیں۔
دیکھا دیکھی شعر موزوں کر لینا اور بات ہے اور باقاعدہ شاعر ہونا اور شاعری کرنا بالکل اس سے مختلف بات ہے۔ بعض لوگ صرف الفاظکو وزن میں جوڑ کر اپنے آپ کو شاعر کی صف میں سشمار کر بیٹھتے ہیں اور بعض اوزانِ شعر کا شعور نہ رکھنے کے باوجود صرف فضول تک بندی کو شعر کی بنیاد سمجھتے ہوۓ خود کو بڑا شاعر تصور لیتے ہیں یہ دونوں چیزیں شاعری کی تعریف کے سراسر خلاف نظر آتی ہیں۔
اس حگہ اگر اپنی مطالعاتی محنت اور ذوق کے تحت دنیائے شعر سے متعلق اساتذۂ عروض کی تصریحات اور ان کے پیش کردہ تعریفاتِ اصطلاحات کا اجمالی ذکر نہ کریں تو یہ نا مناسب سی بات ہو گی ، کیوں کہ بعض سہل نگاروں پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ شاعری صرف چند الٹے سیدھے لفظوں کو جوڑ لینے یا وزن میں دو مصرعے کہہ لینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک باقاعدہ اور مشکل ترین فن ہے، جسے ہم ایک باقاعدہ علمِ موہوبی بھی کہہ سکتے ہیں
0 Comments