امتیاز علی تاج
تعارف
امتیاز علی تاج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے معروف مصنف اور ڈراما نگار تھے۔ 13 اکتوبر 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف اور مجلہ حقوق نسواں کے بانی مدیر تھے۔ تاج کی والدہ محمدی بیگم بھی مضمون نگار تھیں۔تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی درصل یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ (کہکشاں) نکالنا شروع کر دیا۔ ڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔
خدمات
ڈراما کے فن میں اتنی ترقی کی کہ بائیس برس کی عمر میں ڈراما (انار کلی) لکھا جو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بعد بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ انہوں نے کئی ڈرامے اسٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔ انہوں کے علاوہ نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ (قرطبہ کا قاضی) انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور (خوشی) پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔ امتیاز علی تاج نے بچوں کے لیے ایک جاسوسی سیریز انسپکٹر اشتیاق شروع کی، چچا چھکن ان کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ لیلی یا محاصرۂ غرناطہ (مترجم ناول) اور ہیبت ناک افسانے بھی مشہور ہوئے۔ ان کے دیگر کامیاب ڈراموں میں، آخری رات، پرتھوی راج، گونگی، بازار حسن اور نکاح ثانی بھی شامل ہیں انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور ڈرامے کے صدارتی اعزاز سے نوازا۔امتیاز علی تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب لاہور سے وابستہ رہے۔ آپ کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔ آپ نے متعدد اردو ڈراموں کو بھی ترتیب دیا
وفات
18 اپریل 1970 کی ایک رات جب وہ تھکے ماندے چھت پر لیٹے ہوئے تھےقریب ہی شریک حیات حجاب امتیاز علی سو رہی تھیں کہ دو آدمی منہ پر دھانٹا باندھے ہوئے اور چاقو لیے ہوئے آئے اور تاج پر حملہ کر دیا۔ تاج کو کافی زخم آئے اور خون بھی بہا، اسپتال میں ان کا آپریشن کیا گیا۔ وہ خطرے سے باہر بھی آئے، ا نہیں ہوش بھی آیا مگر آہستہ آہستہ سانس رکنے لگی اور 19 اپریل 1970 کو انتقال کر گئے۔ ان کے قاتلوں کو نہ گرفتار کیا جا سکا اور نہ ہی مقدمہ کی تفتیش کا کوئی نتیجہ بر آمد ہوا
امتیاز علی تاج کا ڈراما "انار کلی" - ایک تجزیاتی مطالعہ
اردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما "انار کلی" کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ یہ ڈراما پہلی بار 1932میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے۔ بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم "مغل اعظم" بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ خرافات، مفروضات، قیاس اور وہم و گمان کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے تحقیقی منظر نامے کو گہنا دیا ہے۔ ادب کے قارئین اس داستان کے سحر میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ حقائق کی تلاش میں پیہم ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں مگر نشان منزل کہیں نہیں ملتا۔ وہی نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔ انار کلی کی پوری داستان ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔ڈراما انارکلی ایک رومانی موضوع پر لکھی گئی داستان کی اساس پر استوار ہے۔ مطلق العنان مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنی منظور نظر کنیز انار کلی کے حسن و جمال اور رقص کا شیدائی ہے۔ نادرہ نامی یہ کنیز قصر شاہی میں اس قدر دخیل ہے کہ تمام امور میں بادشاہ اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔ اس کنیز سے بادشاہ نے جو پیمان وفا باندھا وہ اس کی زندگی میں بے حد اہم ہے۔ اس کہانی میں ایک اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب بادشاہ کا بیٹا اور ولی عہد شاہزادہ سلیم بھی اسی کنیز کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا ہے جو اس کے باپ کے لیے راحت و آرام کا وسیلہ ہے۔ ای طرف تو جلال الدین اکبر کی ہیبت و سطوت کے سامنے یہ کنیز بے بس ہے تو دوسری طرف شہزادہ سلیم کی پر کشش شخصیت اور انداز دلربائی نے اسے تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن جاتا ہے۔ ایک طرف تو شہنشاہ جلال الدین اکبر اس کنیز کو اپنی ذاتی ملازمہ سمجھتے ہوئے اس پر بلا شرکت غیرے اپنا استحقاق جتاتا ہے تو دوسری طرف ولی عہد شہزادہ سلیم کی نگاہ انتخاب اس پر پڑ چکی ہے اور اس کہ اپنی شریک حیات بنانے پر تل گیا ہے۔ انارکلی نہایت راز داری سے کام لیتے ہوئے اپنے دونوں عشاق کے دل کی تسکین کا خیال رکھتی ہے، لیکن عشق اور مشک کبھی چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ یہ راز بالآخر ایک اور کنیز دلآرام کی سازش سے طشت از بام ہو جاتا ہے۔ جلال الدین اکبر اور شہزادہ سلیم میں اس کنیز کے حصول کے لیے محاذ آرائی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ دونوں کی افواج آمنے سامنے ہو جاتی ہیں اور ایک جنگ کے بعد شہزادہ سلیم اور انار کلی کو قید کر لیا جاتا ہے۔ شہزادہ سلیم تو محفوظ رہتا ہے مگر انار کلی کو جلال الدین اکبر کے احکامات کے تحت زندہ دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ اس طرح اس پوری کہانی کو ایک المیہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے ایک پورے خاندان اور پوری سلطنت کو ہلا کر رکھ دیا۔ جنرل مان سنگھ جیسے دلیر سپہ سالار اور معاملہ فہم سپاہی، اکبر جیسے سیاست دان اور منتظم کو اس رومانی داستان نے بے بس و لاچار بنا کر اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ یہ تمام سوالات ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے لمحہ ء فکریہ ہیں۔ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ زیب داستاں کے لیے اس داستاں میں بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے۔ یہ سار ا افسانہ کذب و افترا، بہتان طرازی، الزام تراشی، کر دار کشی اور بدنیتی پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافی کی قبیح مثال ہے۔ خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ افسانے کبھی حقیقت نہیں بن سکتے۔ اس فرضی، من گھڑت اور پشتارۂ کذب و افترا ڈرامے کے پس منظر کے بارے میں کچھ چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں۔ ان کی روشنی میں تاریخی صداقتوں کی تفہیم اور درست نتائج تک رسائی کی ایک ممکنہ صورت پیدا ہو سکتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599 میں وقوع پذیر ہوا۔ یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618 میں لاہور پہنچا، اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے۔ اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے۔ اس نے اکبر کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے بعد 1618میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا، اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔ دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ چار سال بعد یعنی 1622 میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات پر کان نہ دھرا۔ اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔ پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوں پر بھی نظر رکھتے تھے، انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے۔ یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویا وہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا۔ 1864 میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف "تحقیقات چشتی" میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے۔ 1882 میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف "تاریخ لاہور" میں انار کلی، اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعد اس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore) میں کیا ہے۔ یہ انگریزی کتاب 1892 میں شائع ہوئی۔ تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی، اکبر اور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میں یورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا، آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ دروغ گوئی کے اس طوفان بلا خیز میں بسیط حقائق اب عنقا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں ادبی تحقیق پر مائل ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دیکھیے اب افسانہ طراز، چربہ ساز اور کفن دزد عناصر کیا گل کھلاتے ہیں اور نتائج کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
ڈرامہ حقیقت یا جھوٹ
آثار قدیمہ، تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شو شہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا۔ اس کے آثار لاہور شہر میں کہیں موجود نہیں۔ انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ، مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔ جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی اور اس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا؟ جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پر کیا گزری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ کیا اکبر اعظم کا نظام سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہی ں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرار دیتے ہیں۔لاہور سول سیکرٹیریٹ میں جو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہیں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب زادی "صاحب جمال "کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا۔امتیاز علی تاج نے ولیم فنچ کے بیان کو بنیاد بنایا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ اور تخلیق ادب کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ فرد کی اجتماعی زندگی مختلف نوعیت کے حالات کی امین ہوتی ہے۔ زندگی میں تغیر و تبدل کا ایک نظام موجود ہے اور اجتماعی زندگی انہی قوانین کے زیر اثر رہتی ہے۔ وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرنے والوں کہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کہ شعور و ذہن کا ارتقا تاریخ کے ایک ایسے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کرتا ہے جو فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے تاریخ اور تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں بلاشبہ مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے۔ ان کے اسلوب میں تاریخی شعور کا جو منفرد انداز جلوہ گر ہے وہ زندگی کی ایسی معنویت کا مظہر ہے جو نئی بصیرتوں کی امین ہے۔ہیگل نے لکھا ہے۔چونکہ انسانی آزادی اور حساس آزادی ایک چیز ہے لہذا آزادی کا ارتقا کا شعور ذہن کا ارتقا ہے۔ اس عمل میں ہر قسم کے افکار تشکیل پاتے ہیں۔ اس لیے فلسفہ تاریخ صرف انسانی عمل ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ وہ کائناتی عمل سے بھی پردہ اٹھاتا ہے۔ڈرامہ انارکلی امتیاز علی تاج نے 1922 میں مکمل کیا۔ اس کی اشاعت دس سال بعد ہوئی۔ اس ڈرامے کو تاریخ کا معتبر حوالہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس ڈرامے کے اہم پہلو حسب ذیل ہیں
پلاٹ
سید امتیاز علی تاج کو زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس حاصل تھی۔ ڈراما انارکلی کا پلاٹ سادہ اور مؤثر ہے۔ تخلیقی عمل میں ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے امتیاز علی تاج نے نہ صرف کہانی کا تسلسل برقرار رکھا ہے بلکہ پلاٹ کی ضروریات کے مطابق کشمکش، حیرت و استعجاب اور جستجو کا بھی خیال رکھا ہے۔ قاری ہر لمحہ اس فکر میں رہتا ہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ امتیاز علی تاج کو مورخ سمجھنا ایک غلطی ہو گی۔ ایک ڈراما نگار اور فکشن رائٹر سے تاریخی حقائق کی چھان پھٹک اور سچے واقعات کی تحقیق کی توقع رکھنا نہ صرف نا مناسب ہے بلکہ ادبی اسلوب کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ وہ ایک صاحب طرز نثر نگار تھے۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے ڈراما انار کلی میں جس طرح تخیل کی جولانیاں دکھائی ہیں وہ اس ڈرامے کو لا زوال بنا چکی ہیں۔ اگرچہ ڈراما انار کلی کا پلاٹ تاریخی صداقتوں سے معرا ہے مگر اسلوبیاتی حوالے سے یہ پلاٹ اس قدر پر تاثیر اور جان دار ہے کہ قاری اس کی گرفت سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔
مکالمہ نگاری
ڈراما انار کلی کے مکالمے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر منوا لیتے ہیں۔ مثلاً اکبر کا یہ کہنا آہ! میرے خواب۔ وہ ایک عورت کے عیشوں سے بھی ارزاں تھے۔ فاتح ہند کی قسمت میں ایک کنیز سے شکست کھانا لکھا تھا۔مکالموں میں جذبات کا ایک سیل رواں ہت جو امڈا چلا آتا ہے۔ قاری اس سیل رواں میں بہتا چلا جاتا ہے۔ کر داروں کا دبنگ لہجہ بادل کی طرح کڑکتا ہے۔ کر داروں کی خود کلامی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ مثلاًانارکلی: "میری ا ماں! میں خوش ہونے والا دل کہاں سے لاؤں؟ تمھیں کیسے سمجھاؤں کہ میں کیوں غمگین ہوں؟سلیم: سب کچھ ہو چکا، انھیں سب معلوم ہو گیا۔ محبت بچھڑ گئی، آرزوئیں اجڑ گئیںانارکلی کی ایک اور خود کلامی قابل توجہ ہےٹوٹ جا۔ نیند ٹوٹ جا، میں تھک گئی، سانس ختم ہو جائیں گےاکبر کی خود کلامی میں اندیشہ ہائے دور دراز اور مستقبل کے حادثات اور تفکرات کے متعلق نہایت پر اسرار گفتگو ہے جو قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے اس قسم کی خود کلامی کے ذریعے پنے اسلوب کی تاثیر کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ قاری پہلے تو اس تمام کیفیت کو حیرت سے دیکھتا ہےس کے بعد وہ گہری سو چ:میں ڈوب جاتا ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے اکبر کی خود کلامی کا جس انداز پیش کیا ہے وہ اس بادشاہ کے اندرونی کرب اور ذہنی پریشانی کو صحیح کیفیت میں سمجھنے میں مدد دیتی ہےمیرے دماغ میں شعلے بھڑک رہے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کیا کر بیٹھوں گا، مگر وہ اس صدمے کی طرح مہیب ہو گا۔سید امتیاز علی تاج کو نفسیاتی کیفیات اور قلبی احساسات کے بیان پر جو قدرت حاصل ہے وہ ان کے اسلوب کا نمایاں ترین وصف ہے۔ مثال کے طور پر خود کلامی کرنے والے کر دار در اصل اپنے داخلی کرب اور اندرونی کش مکش کو اپنے مکالمات کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ شہزادہ سلیم کی خود کلامی سن کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہزادہ کن اندیشوں کے نرغے میں ہے"کیسی گہری اور اندھیری کہر، جس میں خون کے جلتے ہوئے دھبے ناچ رہے ہیں اور اس پار زرد چہرہ، پھٹی ہوئی آنکھیں اور سلیم! سلیم! کی فریاد"جس وقت انار کلی کو اکبر کے حکم کے تحت عقوبت خانے میں قید کیا جاتا ہے تو وہ بے بسی کے عالم میں سلیم کو پکارتی ہے۔ اس کی یہ دردناک آواز قاری کی روح پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے ان ہراساں شب و روز کا احوال بیان کرتے ہوئے تمام نفسیاتی پہلوؤں کہ پیش نظر رکھا ہےآجاؤ! تمھاری انار کلی تمھیں دیکھے بغیر نہ گزر جائےسید امتیاز علی تاج نے ڈراماانار کلی میں مکالمہ نگاری کے فن کو اوج کمال تک پہنچا دیا ہے۔ تمام کر دار موقع اور محل کی مناسبت سے جو گفتگو کرتے ہیں وہ نہ صرف ان کے حسب حال ہوتی ہے بلکہ اسے سن کر قاری کی آنکھیں بھی پر نم ہو جاتی ہیں۔ سید امتیاز علی تاج نے فنی تجربوں کے اعجاز سے ڈراما نگاری کو نئے امکانات سے آشنا کیا۔ کر دار نگار ی اور مکالمہ نگاری میں انھوں نے جو منفرد تجربات کیے ہیں ان سے اردو ڈراما کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈرامہ نگاری میں نت نئے تجربات ان کی ادبی زندگی کا عشق قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری میں پائے جانے والے جمود اور یکسانیت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور افکار تازہ کی ایسی شمع فروزاں کی جس کی ضیا پاشیوں سے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے۔ شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کی خود کلامی اور ذہنی کیفیت کے بیان میں ایک بلند پایہ تخلیق کار کی حیثیت سے سید امتیاز علی تاج نے اپنے نادر اسلوب سے قاری کو محو حیرت کر دیا ہے۔ جب شہزادہ سلیم انار کلی کی محبت میں اپنے باپ سے آمادۂ پیکار ہو جاتا ہے تو اکبر کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ وہ فرط غم سے نڈھال ہو کر اپنے بیٹے سے کہتا ہے:کیا معلوم تھا یوں ہو گا شیخو! میرے مظلوم بچے! میرے مجنون بچے! اپنے باپ کے سینے سے چمٹ جا! اگر ظالم باپل سے دنیا میں ایک بھی راحت پہنچی ہے تیرے سر پر اس کا ایک بھی احسان باقی ہے تو میرے بچے اس وقت میرے سینے سے چمٹ جا اور تو بھی آنسو بہا اور میں بھی آنسو بہاؤں گا
سید امتیاز علی تاج نے ڈراما کے اسلوب اور ہیئت کے جمالیاتی پہلوؤں پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ان کے اسلوب میں جدت، تنوع اور صد رنگی کی کیفیت قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے ان کی انفرادیت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ یہ انفرادیت کئی لحاظ سے ایک دلکش تجربے کے روپ میں ڈرامے کو معراج کمال تک پہنچا دیتی ہے۔ اس میں عصری آگہی، اجتماعیت، لفظی مرقع نگاری اور نفسیاتی شعور کے اعجاز سے قاری کے دل میں تخلیق کار کے ساتھ ای گہرا ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ اکبر کا یہ مکالمہ کس قدر کرب ناک ہے۔ اس کو سید امتیاز علی تاج نے کس قدر پر تاثیر انداز میں پیش کیا ہے:
"آہ! میرے خواب۔ وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے۔ فاتح ہند کی قسمت میں ایک عورت سے شکست کھانا لکھا تھا۔"
معاشرتی زندگی ہدف تنقید
سید امتیاز علی تاج نے ڈراما انار کلی کو موضوع، مواد، حسن بیان، مکالمہ نگاری اور کر دار نگاری کے انتہائی دلکش انداز کی بدولت ابد آشنا بنا دیا ہے۔ ان کی نیت طیبہ نے اس تخلیق کو وہ منفرد مقام عطا کیا ہے کہ انھیں شہرت عام اور بقائے دوام نصیب ہو گئی ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے معاشرتی زندگی کی بے سمتی اور فکری کجی کے متعدد پہلوؤں کو اس ڈرامے میں ہدف تنقید بنایا ہے ان کی موزوں طبع نے ہر کر دار کو لا زوال بنا دیا ہے۔ اکبر جو اس ڈرامے کا سب سے بڑا المیہ کر دار ہے اس کے بارے میں یہ طے ہے کہ سید امتیاز علی تاج نے اسے اس تمام المیے میں اہم ترین مقام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا ڈراما ہی اکبر کا المیہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اکبر کے ان الفاظ پر غور کریں جو وہ اپنے لخت جگر سے کہتا ہےمجھے چھو مت! ایک دفعہ باپ کہہ دے۔ صرف ابا کہہ کر پکار لے! میں تجھے خنجر لا دوں۔ ہاں خنجر لا دوں، بیٹا یہ بد نصیب باپ جسے سب شہنشاہ کہتے ہی ن، اپنا سینہ شگاف کر دے گا، خنجر اس کے سینے میں گھونپ دینا، پھر دیکھ لے گا اور دنیا بھی دیکھے گی کہ اکبر باہر سے کیا ہے اور اندر سے کیا ہے۔
المیہ کی کیفیات
سید امتیاز علی تاج نے ڈرامہ انار کلی میں المیہ کی جو کیفیات پیش کی ہیں ان میں نفسیاتی، اخلاقی اور تاریخی المیہ کو بہ طور خاص اجا گر کیا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ ہر اعتبار سے اکبر کا المیہ ہے جو قدم قدم پر غم و اندوہ سے دوچار نظر آتا ہے۔ اس کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہجوم یاس کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کا دل گھبرا گیا ہے۔ جب اس کی کوئی امید بر نہی نا اتی اور سکون قلب کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ جھنجلا جاتا ہے اور بے رحمانہ انتقام پر اتر آتا ہے۔ یہی اس کا المیہ ہے۔ جب وہ یہ فیصلہ صادر کرتا ہے تو وہ کس قدر شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہےجس طرح اس نے میری اولاد کو مجھ سے جدا کیا، یوں ہی وہ اپنی ماں سے جدا ہو گی۔ جس طرح اس نے مجھے عذاب میں ڈالا یوں ہی وہ عذاب میں مبتلا کی جائے گی۔ جس طرح اس نے میرے ارمانوں اور خوابوں کو کچلا ہے، یوں ہی اس کا جسم کچلا جائے گا۔ لے جاؤ! اکبر کا حکم ہے، سلیم کے باپ کا، ہندوستان کے شہنشاہ کا، لے جاؤ اس حسین فتنے کو، اس دل فریب قیامت کو لے جاؤ! گاڑ دو، زندہ دیوار میں گاڑ دو۔ڈراما انار کلی کو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے اپنے تجربات، احساسات اور مشاہدات کو جس کامیابی کے ساتھ قارئین ادب کو منتقل کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ان کے اسلوب میں متعدد معروضی حقائق کی جانب اشارے ملتے ہیں۔ وہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہیں دیتے۔ وہ جبر کا ہر انداز مسترد کرنے کے قائل ہیں اور ظالم کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کر دار ادا کرتے ہیں۔ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ان کا شعار ہے۔ اس ڈرامے میں سید امتیاز علی تاج نے ایک انتہائی اہم بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ انسان کی قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ اس کے تمام معاملات میں تقدیر ہی فیصلہ کن کر دار ادا کرتی ہے۔ تقدیر اگر ہر لمحہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں فضا میں نہ بکھیرے تو اسے تقدیر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس ڈرامے میں بھی تقدیری عنصر نے اکبر کی پوری بساط ہی الٹ دی ہے اور یو ں یہ ڈراما اکبر کا المیہ بن جاتا ہے۔۔
0 Comments