نئیر مسعود Naiyer Masud ||نیئر مسعود کی خاکہ نگاری||نیر مسعود کا شخصی خاکہ ||ادبستان

  

نیئر مسعود کی خاکہ نگاری

نیر مسعود.Naiyer Masud (1936-1917)

;ادبستان 

ادبستان شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے اس کے مصنف نیرمسعود ہیں ادبستان دراصل اس حویلی کا نام ہے جو نیر مسعود کے والد پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب نے خریدی تھی ادبستان پہلی بار 2006 میں شائع ہوئی اور اس کی شادی شہرزاد کراچی کے زیر اہتمام ہوئی ہے  ادبستان کا دیباچہ معذرت کے عنوان سے نیرمسعود نے لکھا ہے اس کے بعد رشید حسن خان ،ڈاکٹر کسیری کشور شہنشاہ مرزا، پروفیسر احتشام حسین، صباح الدین عمر  ،محمود ایاز ،شمس الرحمن فاروقی ،پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب اور عرفان صدیقی کی شخصی خاکہ تراشے گئے ہیں اس  کے ساتھ  ساتھ ادبستان کے عنوان سے اس حویلی کا تفصیلی حال بھی بیان کیا گیا ہے

 ادبستان نیر مسعود کی تصنیف ہے جو شخصی خاکوں پر مشتمل ہے اردو میں خاکہ نگاری کی روایت کافی توآنا ہے  ادبستان کو اس روایت میں ایک معتبر اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے ادبستان کی فہرست میں کل بارہ عنوانات ہیں لیکن ان میں شخصی خاکے تو شخصیات کے ہیں ادبستان کے عنوان سے اس حویلی کی تصویر کشی کی گئی ہے جو نیر مسعود کے والد محترم مسعود حسن رضوی ادیب نے خریدی تھی اور پھر اس کا نام ادبستان رکھا تھا ادبستان کی فہرست میں عنوانات کی تفصیل کچھ یوں ہے

 رشید حسن خان
 ڈاکٹر کیسری کشور
 شہنشاہ مرزا
 احتشام صاحب یادیں
 احتشام صاحب شخصیت کے چند پہلو
 صباح الدین عمر
 محمود و ایاز

 شمس الرحمٰن فاروقی

ادیب کی ادبی شخصیت

 ادبستان  

چراغ صبح

عرفان صدیقی

 ادبستان جیسا کہ پہلے ذکر کیا گئے حویلی کی لفظی تصویر ہے ادیب کی ادبی شخصیت میں مسعود حسن رضوی ادیب کی شخصیت کے نقوش کھینچے ہے اس کے ساتھ ساتھ چراغِ صبح میں بھی مسعود حسن رضوی ادیب کے آخری ایام کا احاطہ کیا گیا ہے

 شخصی خاکوں کے مجموعے دبستان میں اولین نقشہ اردو کے معروف محقق اور صاحب طرز ادیب رشید حسن خان کا ہے جس میں مصنف نے رشید حسن سے ابتدائی ملاقات اس کی ادبی شخصیت کے اولین نقوش اور ان کی ترتیب کا ذکر کیا ہے

 بیس پچیس برس پہلے ایک دن مرحوم اختر علی صاحب میرے والد سے ملنے آئے تو ان کے ساتھ ایک سنجیدہ صورت جوان بھی تھے بعد میں والد صاحب نے بتایا کہ ان صاحب کا نام رشید حسن خان ہے پھر ان کی لیاقت اور ذہین کی رسائی کی تعریف کی اور ادبی قحط الرجال میں انہیں استشنیٰ قرار دیا اس طرح رشید حسن خان کا نام میرے کان میں پڑا رہ گیا

 اس پہلی ملاقات کے بعد نیر مسعود نے رجب علی بیگ کی فسانہ عجائب کی تدوین کا ذکر کیا ہے یہ رشید حسن خان کی تھی نیر مسعود نے اس کے دوران رشید حسن خان کی ماں کا نہ جستجو اور رویوں کا تذکرہ کیا اس کے بعد محمود شیرانی کی یادیں میں آنے والے سیمینار کے دوران رشید حسن خان کی طرف سے پر رکھے ہوئے تبصرے ان کی طبیعت میں ناامیدی بدگمانی اور ترقی پسند ادب کے بارے میں جانے والے ان کے انداز نگارش کی طرف اشارہ ہے کہ میں بعد اس کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کی شوخی کا ایک اور پہلو تھی قارئین کے سامنے آتا ہے ایک خوش نوجوان کے ہاتھوں چائے پینے سے جب اس نے شکر کی مقدار پوچھی تو صاحب آپ اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر دیتے ہیں تو شکر کی ضرورت ہی نہیں پھر اس طرح پروفیسر سید حسن صاحب کے ہاں نہ جانے کے باوجود اس طرح کا مضمون باندھنا کہ  آپ میرے گھر آئے لیکن میں نہ مل سکا غزل رشید حسن خان کی طبیعت کے رجحانات کی ایک چلتا پھرتا ادیب جس کی طبیعت کے میلانات بھی نظر آتے ہیں  اور ایک ایسا دی بھیجو اب چل کر تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منوانے جاتا ہے

 اس کے بعد ڈاکٹر کیسری کشور کا خاکہ ہے ڈاکٹر کیسری کشور کتب کے ڈاکٹر لیکن اچھی اور نکھری ہوئی ادبی ذوق رکھتے ہیں  غالب کے تو گویا حافظ  ہیں مریضوں کے علاج کے دوران طبی اور ادبی اصطلاح کے مل جاؤ سے ماحول کی خوشگوار بنا دیتے ہیں  تو کیسے کشور کو ایک ڈاکٹر کی بجائے ایک نکھرا ہوا اور خوش ذوق شخص دکھائی دیتا ہے جو ان کی تیمارداری کرکے ان کا دل بہلا دیتا ہے

 ڈاکٹر کیسری کشور  اترپردیش اردو اکادمی کی مجلس عاملہ کے ممبر بھی ہے  لیکن اردو کا مطالعہ ہندی رسم الخط میں کرتے ہیں اچھے شعر کہتے ہیں اور شمس الرحمٰن فاروقی سے فن شعر پر گفتگو کے بعد روح انیس کا مطالعہ کرتے ہیں  پھر ہنوز شیشہ گراں چھپتی ہے نفاست طبع کی بنا پر اس کی طباعت کتاب کو مسترد کر دیتے اور ایڈیشنل دوبارہ چھاپنا پڑتا  ہے  ڈاکٹر کیسری پر قلبی دورہ پڑتا ہے علاج کے بعد گھر واپس آتے ہیں اور جوشن کبیر پڑھنے اور سننے کی فرمائش کرتے ہیں گویا ایک ایسا فرد جو معاشرے میں ایک لگے بندھے معمولات کا اسیر بھی ہے دوستوں کا دوست بھی ہے و سیع المشرب بھی ہے  اور زندگی سے پیار کرنے والا شخص بھی ہے ادبستان میں مصنف کے دوست کے روپ بھی اپنی جھلک دکھا کر ایک دلکش تاثر چھوڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے

 ادبستان کا تیسرا کا شہنشاہ مرزا ہے جو شمس الرحمٰن فاروقی نے ڈاکٹر کیسری کشور کے لکھنؤ سے جاتے اور باقی دوستوں کے لئے گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ کی حیثیت رکھتے تھے جو دوستوں کی خبر گیری سے لے کر ان کی بے ادبی سرگرمیوں پر رائے دنیا بھی ضروری خیال کرتے تھے مطالعہ کا ازحد بڑا ہوا شوق جو انہیں اپنے روزمرہ کے فرائض سے غافل کر دیتا تھا مصنف نے چھ مرزا کے ادبی ذوق پر لکھا ہے ذاتی مسائل پر گفتگو کرتے کرتے ادبی موضوعات پر آجانا سر ادبی گفتگو میں پڑھ کر کے مسائل کو بھول جانا شہنشاہ مرزا کی خاص عادت تھی شہنشاہ مرزا کی شخصیت کا درخت بلوچستان میں ملتا ہے وہ ایک ایسا مخلص دوست کا ہے جس کی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع نہیں ہے لیکن وہ اس محدود دائرے میں ایک ذمہ دار کمنٹمنٹ رکھنے والا اور باسلیقہ شخص دکھائی دیتا ہے جو اس دور کے سماجی اور ادبی منظر نامے کو آگے بڑھنے میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے

 احتشام صاحب( منتشر یادیں) اور احتشام صاحب( شخصیت کے چند پہلو) ادبستان کا اگلا خاکہ ہے جو دو حصوں میں تقسیم ہے احتشام صاحب منتشر یادیں میں مصنف نے سید احتشام حسین کی اس شخصیت اور ان اعداد کا ذکر کیا ہے جن میں مصنف کو اس وقت واسطہ پڑتا تھا جب انہیں وہ سوال ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا احتشام حسین صاحب مصنف کے والد سے ملاقات کے لیے جاتے اور کوئی ملاقات نہ کرنے کے باوجود احتشام حسین کی شخصیت سے مرعوب ہونا بغیر سمجھے ان کی گفتگو کو مبنی برصداقت سمجھ لینا مصنف کا وہ تاثر ہے جو ان ابتدائی ایام میں احتشام صاحب نے ان پر چھوڑ آئے ایک شفیق استاد جو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی مہارت اور درست رکھتا ہے طالب علموں سے ہمدردی رکھتا ہے ان کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اس کا دوسرا رخ ہے جیسے قاری ادبستان میں واقف ہوتا ہے

 میرے ساتھیوں میں کسی کو پریشانی لاحق ہوتی تو وہ سیدھا احتشام صاحب کے ہاں پہنچتا احتشام صاحب ہرمسئلے کا جواب تھے  علمی سوالوں سے لے کر دست سوال تک

 سید احتشام حسین کے اس خاکے میں احتشام صاحب کو چلتی پھرتی طلباء کے مسائل میں دلچسپی لیتی تصویر دکھائی دیتی ہے اس کا منفرد پہلو جس سے قارئین ممکن ہے بے خبر ہو وہ سید احتشام حسین پہلے شعر بھی کہتے تھے لیکن ان کا یہ رجحان جلد ہی اختتام کو پہنچ گیا  دوسرے حصے میں ایک احتشام صاحب ہر ملنے والے سے انفرادی سطح پر توجہ بھی دے رہے ہیں ادبی معاملات میں سلیقے سے اختلاف بھی کر رہے ہیں مروت کے پتلے ہونے کے ناطے کتاب پر پیش لفظ لکھنے کے لیے آنے والوں کو انکار نہیں کر رہے  لیکن مذکورہ بالا تمام گھلاو کے باوجود شخصیت میں کچھ مہر بن سکتی کیفیات کے اشارے بھی ادبی میں موجود ہیں محفلوں میں لطیف دوستوں میں گھلنے ملنے کے باوجود ایک اداسی اور افسردگی ان کی طبیعت کا جزو تھی

 صباح الدین عمر ادبستان کیا گلی لفظی تصویر ہے جو پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب کے ایک ہونہار اور ہر دل عزیز شاگرد صباح الدین عمر کی ہے  مصنف نے عنوان کے ساتھ ذیلی عنوان یا دیا ہے اس مختصر تحریر میں صلاح الدین عمر اس کتاب کے قارئین کے سامنے چلتے پھرتے تو دکھائی نہیں دیتے ہیں ان کی شخصیت کے چند پہلو سے نہ ہو جاتا ہے مصنف نے صبح دین کی شخصیت کو مجموعہ اضداد قراردینے کے ساتھ ان کی مزاح میں سادگی اصول پرستی سنجیدگی غیرسنجیدگی واپسی میں کی متضاد صفات کی نشاندہی کی ہے  انیسویں صدی تقریبات کمیٹی کے سیکرٹری بننے سے لے کر ان کے عمرہ کرنے بیماری کی حالت میں ایک عزیز دوست کے شعر جبر کو سہنے اور بیمار ہونے کے باوجود اپنی مصروفیات کو سابقہ ترتیب میں قائم رکھنے جیسے واقعات کو پڑھ کر ذہن میں صباح الدین عمر کا اک دھندلا سا نقش پیدا ہو جاتا ہے 

Post a Comment

0 Comments