Amrao Jaan Adaa ||امراو جان ادا کا تفضیلی فکری جائزہ


 ((((””امراؤ جان ادا““))))

مصنف  ۔۔۔۔۔۔۔۔مرزا محمد ہادی رسوا

اصل عنوان     ۔۔۔۔۔امراؤ جان ادا

ملک        .۔۔۔۔۔۔برطانوی راج

زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔اردو

صنف ۔۔۔۔۔۔۔۔ناول

تاریخ اشاعت۔۔۔۔1899

تاریخ اشاعت انگریری۔۔۔۔۔1970

مرزا ہادی رسوا: ایک معمولی انسان یا نمونہ؟

مرزا ہادی رسوا ایک اہم اردو ناول ہے جس کی تصنیف مرزا احمد خان نے کی تھی۔ یہ کہانی ایک مختلف زندگی کے بارے میں ہے، جو عام لوگوں کے لئے بہت کچھ سیکھنے کو فراہم کرتی ہے۔مرزا ہادی رسوا ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنی زندگی کو سادہ اور بے پردہ رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ایک دن امراو جان کا داخلہ ہوتا ہے، جو ایک خوبصورت اور معصوم خاتون ہیں، اور یہ واقعہ مرزا ہادی رسوا کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لے آتا ہے۔اس ناول میں محبت، دوستی، خیانت، اور وفاداری جیسے موضوعات پر زور دیا گیا ہے، جو انسانی حالات اور معاشرتی معاملات کی عمق کو ظاہر کرتا ہے۔ مرزا ہادی رسوا کی شخصیت میں ہمیں ایک سادہ انسان کی زندگی کے پیچھے چھپی ہوئی خوبصورتی اور اہمیت کی درکاری کو محسوس ہوتی ہے۔

اردو زبان جب تک زندہ رہے گی، مرزا ہادی حسن رسوا اور امراؤجان ادا کا نام زندہ رہے گا۔ امراؤ جان ادا اگرچہ اردو کے اولین ناولوں میں سے ہے، مگر اس ناول کی زبان آج کی زبان معلوم ہوتی ہے، یہی وجہ ہے اس مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ اس ناول کو یہ شرف حاصل ہے کہ پاکستان اور بھارت میں اس پر کئی فلمیں بن چکی ہیں اور انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔امراؤ جان ادا کو ہم اگرچہ اردو کے اولین ناولوں میں گردانتے ہیں، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اردو کا اول ناول کون سا ہے کہ مرزا ہادی حسین رسوا کا امراؤ جان ادا ہے یا ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ "مرزا ہادی رسوا اور امراو جان" ایک مشہور اردو ناول ہے جسے مرزا احمد خان نے لکھا ہے۔ یہ کہانی دو مختلف زندگیوں کے درمیان ایک دلچسپ تعلق پر مبنی ہے۔مرزا ہادی رسوا ایک بڑے خاندان کے محترم افراد میں سے ہیں، جبکہ امراو جان ایک سادہ لیکن خوبصورت اور خوبصورت خواتین کے پسندیدہ ہیں۔ امراو جان کی خوبصورتی اور ان کے رومانی مقامات نے مرزا ہادی رسوا کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے مجبور کردیا۔اس ناول میں محبت، دوستی، خیانت، اور وفاداری جیسے موضوعات پر زور دیا گیا ہے، جو قارئین کو ایک دلچسپ کہانی فراہم کرتا ہے۔النصوع ہے۔

 تاہم ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبۃ النصوع کو وہ شہرت اور زندگی حاصل نہیں ہوئی جو امراؤ جان ادا کو حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ ہے اول تو توبۃ النصوع کی زبان بہت ثقیل ہے اور اس میں خاص کر عربی اور فارسی کے موٹے موٹے ثقیل الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس کو پڑھ کر قاری کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی مولوی کا نصیحت نامہ ہے اور اس میں روز مرہ کی زبان استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کو پڑھ کر نصیحت تو حاصل کی جاسکتی ہے مگر اس میں زبان کا چٹخارا اور لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا ہے۔ بقول عظیم سرور کے اس ناول کا قاری عربی اور فارسی کے موٹے موٹے الفاظ بھرمار اور نصیحتوں سے گھبرا جاتا ہے اور اس لیے اس کو ایک ہی نشت میں پڑھنا دشوار ہوجاتا ہے۔

لیکن جب کوئی امراؤ جان ادا کو پڑھتا ہے تو اس کو ایک ہی نشت میں پڑھنا پسند کرتا ہے اور آج بھی لوگ اس کی زبان کے چٹخارے لیتے ہیں۔ یہ زبان اس قدر عمدہ ہے کہ اس کے بہت بعد کے لکھے ہوئے شرشار کی فسانہ آزاد کی زبان بھی اس سے کہیں زیادہ قدیم معلوم ہوتی ہے۔ اس کے محاورے اگرچہ آج کل سے تھورے سے مختلف ہے، لیکن روز مرہ کی زبان ہے اس لیے اس ناول کے کردار  ناول کو پڑھنے والے کے سامنے گھومتے رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے اس ناول کے کردار مانوق الفطرت کردار نہیں ہیں اور نہ ہی حقائق کے خلاف ہیں۔ ان کی کمزوریاں اس وقت کے ماحول کے مطابق ہیں، جس کو پڑھنے والا اس وقت کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس میں اس وقت کے لوگوں کی عام کمزوریاں، رویوں اور خوداریوں کی نشادہی ہوتی ہے۔ اس ناول میں نہ ہی کوئی نصیحت ہے اور نہ ہی کوئی پشیمانی کا اظہار ہے۔ اس ناول کی ہیروئن جو پہلے امیرن تھی، پھر امراؤ اور اس کے بعد امراؤ جان اور اس کے بعد امراؤ جان ادا بنی اور وہ اپنے کو حالات کے مطابق درست سمجھتی ہے۔ حتیٰ کے وہ اپنے گھر والوں سے مل کر بھی اس کو حسرت یا پشیمانی نہیں ہوتی ہے کہ حالات نے اس کو کس نہج پر ڈالا۔ اس کا یہی کہنا ہے کہ اس نے جو کچھ بھی کیا حالات کے مطابق کیا اور اس پر اسے کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ناول نفسیاتی ناول ہے۔ یہ اصلاح میری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔  

امراؤ جان ادا پر توبۃ النصوع کو یہ فضیلت ضرور حاصل ہے کہ اس میں باقاعدہ پلاٹ ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ توبۃ النصوع میں ناول کے تمام لوازمات یا شرائط پوری ہیں۔ جب کہ اس کی نسبت امراؤ جان ادا میں کوئی پلاٹ نہیں ہے یہی وجہ کہ بہت سے تنقید نگاروں نے امراؤ جان ادا کو ناول تسلیم نہیں کیا ہے۔

امراو جان اداکا فکری جائزہ

فکری طورپر دیکھا جائے تو امراؤ جان ادا بیک وقت سماجی، معاشرتی، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر انگیز حالات و واقعات پیش کیے ہیں۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کے اندر ہمیں سماجی و معاشرتی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے و سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات بھی نظرآ رہے ہیں۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو درپیش آئے ان کے دھڑکتے دل، سوچیں، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں، خدشات، تجربات اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک سچا اور حقیقی ناول ہے جو اپنے وقت کے معاشرے کی ایک مکمل تصویر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور سماج کی عکاسی کرتے ہوئے طوائفوں کے کوٹھے کو مرکز بنا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے لکھنؤ کے در و دیوار، بازار اور گلی کوچے دکھائے ہیں۔ طوائفوں کا یہ بالاخانہ ایسا مقام ہے جہاں سے ہم پورے معاشرے کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے یہی کہ بہت سے شریف گھرانوں کی امراؤ جان جیسی بچیاں اغوا کرکے اپنے دام کھرنے کرنے کی غرض سے گناہ کے دلدل میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ جہاں وہ تمام عمر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتیں۔ امرا ءجا ن اد کے علاوہ رام دئی آبادی جان اور خورشید جان درحقیقت ایسی بے شمار لڑکیوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جنہیں اغوا کرکے اونے پونے داموں طوائفوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا ہے۔ اس سے ہم بخوبی انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت بردہ فروشی کا ایک باقاعدہ نظام تھا۔ معاشرتی و سماجی حقیقت نگاری کا قرض ادا کرتے ہوئے ناول نگار نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی ہے کہ ا س وقت کی لکھنوی معاشرت میں طوائف کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ طوائف مالدار لوگوں کی ایک لازمی ضرورت تھی۔ اسے سوسائٹی کا اٹوٹ انگ سمجھا جاتا تھا۔ طوائف کے ہاں آنا جانا اور اسے اپنی داشتہ بنا کر رکھنا فخر اور نمود نمائش کا درجہ رکھتا تھا۔ اس زمانے کے لکھنؤ ی سماج میں طوائف کا وجود ایک مقبول فیشن کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کی فضا ءمیں ان گنت نوابین اور خوانین طوائفوں کے درباروں میں سجدہ ریزی کرتے دکھائے دے رہے ہیں۔ اس میں اٹھارہ انیس سال کے نوجوان نوابوں سے لے کر ستربرس کے نواب جعفر علی خان جیسے کمر خمیدہ اور سفید ریش نواب بھی نظرآتے ہیں۔ نوجوان نوابوں میں نواب چھبن، راشد علی راشد اور نواب سلطان پیش پیش ہیں۔ نواب سلطان ایسے لوگوں کی نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو منافق قسم کے سفید پوش ہوتے ہیں اور دنیا کی نظرو ں سے چھپ کر گناہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ تاکہ شرافت کا لبادہ بھی نہ اترے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی ہو جائے۔

ناول نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا ہوا ہے۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور بنا رکھا ہے۔ وہ منشور”مسی “ کی رسم سے شروع ہوتا ہے۔ جو صرف اور صرف کوئی نواب ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں پہنچ جاتی ہے۔

ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنؤ کی زوال پزیر معاشرت میں طوائفوں کا دور دورہ تھا۔ نوابوں کے محلوں اور عملداری پر طوائفوں کا سکہ چلتا تھا۔ نوابین سیر و سیاحت، شکار اور کھیل تماشوں کے موقعوں پر طوائفوں کی فوج ظفر موج اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بڑی بری ڈیر ہ دار طوائفوں کا ساز و سامان نوابوں کے خر چ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا تھا۔ نوابزادے بلکہ حرامزادے طوائفوں کے نخرے اٹھانے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے۔ طوائف اس وقت کی معاشرت میں اس قدر سرائت کر چکی تھی کہ طوائفوں کے کوٹھوں اور بالاخانوں کو تہذیب کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ شرفاءاپنی اولاد کو گناہ کی ان بھٹیوں میں آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے۔ تاکہ وہ کند ن بن کر نکلیں، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ کندن کی بجائے گندے بن کر نکلتے تھے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امراؤ جان ادا لکھنؤ ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کے ا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں، شاہی محلوں، نائٹ کلبو ں، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی ماڈل گرل اور اداکارہ میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ جب کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے

حسن سو بارلٹے پھر بھی حسیں ہو تا ہے

جس طرح لکھنؤ میں گناہ کی دلدل میں دھکیل دی جانے والی لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتی تھیں تو آج بھی جو معصوم پھول بازاروں میں بک جاتے ہیں وہ لوٹ کر گلزاروں میں نہیں جاسکتے۔

بک گئے حیف جو سب شہر کے بازاروں میں

پھول پھر آنہ سکے لوٹ کے گلزاروں میں

لیکن رسوا نے اصلاحی اندا ز میں یہ تاثر دیا ہے کہ گناہ کی زندگی ایک لعنت ہے ہر عورت کو چاہیے کہ وہ ازدواجی زندگی اختیار کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری کے اندر عصمت اور پاکیزی کا تقدس برقرار رکھے۔ یہی سب سے بڑی دولت ہے۔ سکوں کی جھنکار جوانی تک ہے۔ اس کے بعد دین و دنیا کی رسوائی ہے اور پچھتاوا ہے۔ پشیمانی ہے، نفسیاتی توڑ پھوڑ ہے۔ رسوا نے اصلاحی پیغام بڑے دلدو ز انداز سے دیا ہے۔ مگر افسوس اس کا کیا کیا جائے کہ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ.

شور ہوتا رہا مے خانوں میں

حسن لٹتا رہا ایوانوں میں

رات ڈھل جانے کو تھی جب فقری

سسکیاں مل گئیں آذانوں میں۔

امراو جان ناول کے کردار 

"امراو جان ادا" ناول میں مختلف کردار شامل ہیں، جن کے بارے میں چند معلومات درج ذیل ہیں:

1. امراو جان: یہ کہانی کا مرکزی کردار ہیں، جو ایک خوبصورت اور دلکش شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی کے مختلف حالات اور ان کے ساتھ گزری ہوئی مواقع ناول کی روایت کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔

2. سمیرا: سمیرا امراو جان کی محبوب ہیروئن ہیں، جو ان کے دل کو چھو جاتی ہیں اور ان کے ساتھ خوبصورت لمحے گزارتی ہیں۔

3. فرحان: یہ امراو جان کا دوست ہے، جو ان کے ساتھ کئی ماحولوں میں رہتا ہے اور ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

4. ہمایون: امراو جان کا دوست اور ساتھی، جو ان کی مدد کرتا ہے۔

5. محبت خان: یہ ایک دوسرے کردار ہیں جو امراو جان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

6. رحمت خان: امراو جان کا دوست اور مددگار، جو ان کی مدد کرتا ہے جب وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

ان کرداروں کی داستان ناول کو مزید دلچسپ بناتی ہے اور قارئین کو ایک معمولی زندگی کی مثالی کہانی فراہم کرتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments