خطوط غالب نثر جدید کی ابتدا ہیں
خطوط غالب نثر جدید کی ابتدا ہیں غالب نے اردو میں خط لکھنا نہ شروع کیا ہوتا تو اردو میں نئی طرح کی عالمانہ اور علمی نثر کے شروع ہونے میں کچھ دیر لگ سکتی تھی یہ بات صحیح ہے کہ غالب سے بہت پہلے اردو میں ایسی نثر لکھی جاچکی تھی جس میں عبارت آرائی اور پیچیدہ عربی فارسی آمیز اسلوب کی جگہ اداے مطلب کو زیادہ اہمیت دی گئی تھیں اور ایسی نثر فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بھی بہت پہلے سے اردو میں لکھی جارہی تھی لیکن اس نثر کو علمی نہیں کہہ سکتے یعنی ان تحریروں کے مخاطب ایسے لوگ تھے جو فارسی نہیں جانتے تھے شاہ عبدالقادر اور دوسرے بزرگوں کے ترجمہ قرآن ہویا شاہ رفیع الدین کا ترجمہ اور مختصر تفسیر قرآن یا شاہ مراد اللہ سنبھلی کا ترجمہ و تفسیر ر یا ہری ہر پرشاد سنبھلی اور رستم علی بجنوری کی تاریخیں یہ سب لوگ فورٹ ولیم کالج کہ بہت پہلے تھے اور ان کی تحریریں اگرچہ اردو نثر کا نمونہ ہے لیکن یہ علمی نثریں نہیں ہے کیونکہ ان میں علمی مسائل نہیں بیان کئے گئے ہیں اس کے برخلاف ایک طرف تو غالب کی نثر ایسی نثر ہے جس میں فرحت انگیز بے تکلفی اور سادگی اور برجستگی ہے اور دوسری طرف اس نثر کے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس میں عالمانہ مسائل اور باریک مضامین کا بیان بھی ہو سکتا ہے یعنی غالب کی نثر ایک طرف تو غیر رسمی اور گھریلو قسم کی ہے اور دوسری طرف اس میں اتنی لچک بھی ہے کہ مشکل باتیں بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے غالب کے خطوط کی نثر کے انداز کو آگے چل کر سر سید شبلی سلیمان ندوی وغیرہ نے پروان چڑھایا پھر ہمارے زمانے میں مجنوں گورکھپوری رشید احمد صدیقی اور محمد حسن عسکری کے یہاں اس کا رنگ اور روپ نکھرا یہ نثر شعوری طور پر استدلال اور بحث مباحثہ کو اختیار کرتی ہے لیکن اس کا آہنگ ہمیشہ رواں اور بے تکلفانہ ہوتا ہے خطوط غالب کےعلمی نثر کا نمونہ امام بخش صہبائی کے بہترین ترجمہ حدائق البلاغت میں عملی طور پر دیکھا جا سکتا ہے صہبائی نے علم بیان پر فارسی کے مشہور شاعر اور عالم شمس الدین فقیر کی کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا تھا تھا اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ فارسی کی علمی عبارت نہیں سمجھ سکتے وہ اردو کے ذریعے شمس الدین فقیر سے استفادہ کر سکیں گے لیکن ان کا ترجمہ خود اس قدر خشک اور ادق ہے کہ ادب کے عام طالب علموں کے لئے اس کا کارآمد ہونا مشکوک ہے یہ ترجمہ( جس پر بعد میں حاشیہ بھی لکھے گئے) مسئلہ شمشاد لکھنوی نہیں آثار الصنادید کے پہلے ایڈیشن میں بعض جگہ اردو لکھی ہے جو نہایت جڑی ہوئی ہے اس کا صحیح پڑھنا بھی مشکل ہے ہے جائے کہ اس کو سمجھنا یہ بات خیال رہے کہ غالب نے اردو میں لکھنے کا آواز (اٹھارہ سو انچاس1849) یا اس سے کچھ پہلے ہی کیا ہوگا اور ان کے خطوط کے ادبی حسن کی شہرت بعد میں پھیلی سرسید نے یقینا غالب کا اثر قبول کیا ہوگا کیونکہ آثار الصنادید کی دوسری جلد صاف اور بے تکلف بیانیہ نثر میں ہے غالب نے اردو نثر کو جدید زبانوں جیسا المیاہ دے کر ثابت کر دیا کہ اردو زبان مختلف صرف طرح کے مطالب خوبی ادا کرسکتی ہے غالب اپنے خطوط میں بیک وقت بہت بڑے مزاح نگار، بہت بڑے عالم، بہت بڑے شاعر بہت بڑے واقعہ نویس، اور شہر دہلی کے بے نظیر مرثیہ خواں اور بہت بڑے انسان ہیں علاوہ بریں وہ ہم انسانوں کی طرح چڑ چڑے جھگڑالو گھمنڈی اور زمانہ شناس بھی ہیں ہیں
0 Comments