Simab akbar abadi||دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں


 

Semaab Akbar Abadi سیماب اکبر آبادی

Semaab Akbar Abadi سیماب اکبر آبادی


 


31 جنوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یومِ وفات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیماب اکبرآبادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                           حقیقی نام عاشق حسین صدیقی اور سیماب تخلص ہے۔ 05 جون 1880ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ سیماب نے فارسی اور عربی کی تعلیم جمال‌ الدین سرحدی اور رشید احمد گنگوہی سے حاصل کی۔ 1897ء میں سترہ سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا۔ جس کے سبب ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ زمانہ طالبِ علمی میں ان کا یہ دستور تھا کہ فارسی نصاب میں جتنے اشعار شریک درس ہوتے تھے ان کا ترجمہ اردو نظم میں کرکے اساتذہ کے سامنے رکھ دیتے تھے۔ 1898ء میں ملازمت کے سلسلے میں کان پور گئے اور وہیں فصیح الملک داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے۔ 1900ء میں سکینہ بیگم سے شادی ہوئی۔ دیوہ شریف میں حاجی حافظ سید وارث علی شاہ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ 


                             1921ء میں ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور قصرِ ادب کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا۔ ہفتہ وار 'تاج' ، ماہنامہ 'شاعر'، ماہنامہ 'مرصع' ، ماہنامہ 'پردہ نشین' اور 'آگرہ اخبار' کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ 1944ء کے آغاز میں قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دس ماہ میں منظوم ترجمہ مکمل کر کے علما کی خدمت میں پیش کر دیا۔ ستاروں کا ترجمہ ایک ہی بحر میں منظوم کیا گیا حاشیہ پر ضروری تشریح دی گئی علما کے تعریفی کلمات کتاب کے آخر میں شامل کیے گئے قرآن مجید کا یہ منظوم اردو ترجمہ "وحی منظوم" کے نام سے مشہور ہوا۔ 1981ء کو اسلام آباد میں پندرہویں صدی ہجری کے سلسلہِ تقسیم انعامات میں قرآن پاک کے چار مختلف زبانوں کی کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ "وحی منظوم" کتاب سرفہرست تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد سیماب کراچی آ گئے اور یہیں 31 جنوری 1951ء کو انتقال کر گئے۔


                            سیماب اکبر آبادی کو قائد اعظم سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کی ایک کتاب "قائد کی خوشبو" اس بات کا ثبوت بھی ہے۔  بلآخر سیماب بھی اپنے محبوب کے پہلو میں نہ سہی تو  کم از کم اس کے کوچے میں ضرور مدفون ہیں۔ علامہ سیماب اکبر آبادی نے متنوع موضوعات پر اڑھائی سو سے زائد کتب تصنیف کیں۔ 

 ’’کلیم ِ عجم‘‘،

 ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘،

 ’’لوح ِ محفوظ‘

‘ ’’ورائے سدرہ

‘، ’’کار ِ امروز

، ’’ساز و آہنگ‘‘،

 ’’الہام ِمنظوم‘‘ ( مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ ) ،

 ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ)

’’عالم ِ آشوب‘‘

 (رباعیات)، ’’تغیر ِ غم‘‘(سلام و مراثی)، 

’’شعر ِِ انقلاب" 

(انقلابی نظمیں) ان کی چند اہم تصانیف ہیں۔

 منتخب اشعار :


عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن 

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں 

۔۔۔۔۔۔

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں 

اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں 

۔۔۔۔۔۔

غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے 

ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔

روز کہتا ہوں کہ اب ان کو نہ دیکھوں گا کبھی 

روز اس کوچے میں اک کام نکل آتا ہے 

۔۔۔۔۔۔

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں 

نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی 

۔۔۔۔۔۔۔

صحرا سے بار بار وطن کون جائے گا 

کیوں اے جنوں یہیں نہ اٹھا لاؤں گھر کو میں

۔۔۔۔۔۔۔ 

ہائے سیماب اس کی مجبوری 

جس نے کی ہو شباب میں توبہ 

۔۔۔۔۔۔۔

وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری 

یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

۔۔۔۔۔۔۔

تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست 

اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا 

سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا 

۔۔۔۔۔۔۔

خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا 

وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

۔۔۔۔۔۔۔

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا 

دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے






علامہ سیماب اکبر آبادی کا یوم وفات 


 اردو کے نامور اور قادرالکلام شاعر، سیکڑوں شاگردوں کے استاد. 


مختصر تعارف 


اکبر آباد، آگرہ میں‌ ۵ جون ۱۸۸۰ء کو پیدا ہونے والے علامہ سیماب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تھا۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اپنے وقت کے نام وَر اور استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے۔ مشقِ سخن کے بعد ایک وقت آیا جب خود علامہ سیماب کے ڈھائی ہزار تلامذہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے تھےوہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہے، لیکن زبان و ادب کی خدمت کے خیال سے مستعفی ہوکر آگرہ میں ’’قصرُ الادب‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تاج‘‘ اور ایک ماہ نامہ پرچہ ’’شاعر‘‘ نکالا اور شعروادب کو فروغ دیا علّامہ سیماب اکبر آبادی کو اردو، فارسی اور ہندی زبان کے قادرُ الکلام شعرا میں شمار کیا جاتا ہے جن کی تصانیف کی تعداد ۳۰۰ کے لگ بھگ ہے۔ انتقال سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ وحئ منظوم کے نام سے مکمل کیا تھا ان کا شمار بیسویں صدی کے اوائل کے ان شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف اصنافِ سخن مثلاً غزل، نظم، قصیدہ، رباعی، مثنوی، مرثیہ، سلام، نوحہ اور حمد و نعت میں فکری و فنّی التزام کے ساتھ کام یاب اور بامقصد تجربے کیے اور مقبولیت حاصل کی۔ سیماب اکبر آبادی کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام اپنے زمانے کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا سیماب اکبر آبادی کی شاعری ان کے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کے سبب اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ خاصی مقبول ہوئی اور وہ ہر خاص و عام میں‌ پہچانے جاتے تھے۔ نیرنگیِ خیال، شستہ و پاکیزہ، پُراثر اور زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے آراستہ ان کا کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ علامہ سیماب کی تصانیف میں ’’کلیمِ عجم‘‘، ’’سدرۃُ المنتہیٰ‘‘، ’’لوحِ محفوظ‘‘، ’’ورائے سدرہ‘‘، ’’کارِ امروز‘‘، ’’ساز و آہنگ‘‘، ’’الہامِ منظوم‘‘(مثنوی مولانا روم کا منظوم ترجمہ) ’’وحئ منظوم‘‘(قرآن مجید کا منظوم ترجمہ) ’’عالمِ آشوب‘‘ (رباعیات)، ’’تغیّرِ غم‘‘(سلام و مراثی)، ’’شعر انقلاب‘(انقلابی نظمیں) شامل ہیں علامہ سیماب  ۳۱ جنوری ۱۹۵۱ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ علامہ سیماب اکبر آبادی کراچی میں قائدِاعظم کے مزار کے نزدیک آسودہ خاک ہیں۔


 علامہ سیماب اکبر آبادی کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت. 


عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن 

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں 

۔۔۔۔۔۔

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں 

اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں 

۔۔۔۔۔۔

محبت میں اک ایسا وقت بھی آتا ہے انساں پر 

ستاروں کی چمک سے چوٹ لگتی ہے رگ جاں پر 

۔۔۔۔۔۔۔

غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے 

ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے 

۔۔۔۔۔۔۔۔

روز کہتا ہوں کہ اب ان کو نہ دیکھوں گا کبھی 

روز اس کوچے میں اک کام نکل آتا ہے 

۔۔۔۔۔۔

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں 

نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی 

۔۔۔۔۔۔۔

صحرا سے بار بار وطن کون جائے گا 

کیوں اے جنوں یہیں نہ اٹھا لاؤں گھر کو میں

۔۔۔۔۔۔۔ 

ہائے سیماب اس کی مجبوری 

جس نے کی ہو شباب میں توبہ 

۔۔۔۔۔۔۔

وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری 

یہ محشر ہے یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

۔۔۔۔۔۔۔

تیرے جلووں نے مجھے گھیر لیا ہے اے دوست 

اب تو تنہائی کے لمحے بھی حسیں لگتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

منزل ملی مراد ملی مدعا ملا 

سب کچھ مجھے ملا جو ترا نقش پا ملا 

۔۔۔۔۔۔۔

خلوص دل سے سجدہ ہو تو اس سجدے کا کیا کہنا 

وہیں کعبہ سرک آیا جبیں ہم نے جہاں رکھ دی

۔۔۔۔۔۔۔

کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے 

جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا 

دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے.


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Post a Comment

0 Comments