Ppsc Paper|| پی پی ایس سی سلیبس ||علامہ اقبال کی اردو منظومات

 بانگ درا

  خفتگان خاک سے استفسار
یہ نظم 1902 میں تصنیف اور رسالہ مخزن میں شائع ہوئی اور اس میں علامہ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسان کے لئے موت ایک پہیلی ہے جسے آج تک کوئ نھی بوجھ سکا یہ انسان کے قبضہ قدرت سے باہر ہے اور یہیں سے اس خالق حقیقی کے وجود کا پتہ چلتا ہے اس سلسلے میں علامہ نے دنیاوی زندگی کے حالات کی افسانوی رنگ میں عکاسی کی ہے اس نظم کے ان تین بندوں میں وہ کئی اشعار نہیں ہیں جو مخزن میں شائع ہوئے تھے بعض اشعار نئے ہیں جو بعد میں 
اضافہ کئے گئے ہیں

نیا شوالہ

علامہ اقبال کی یہ نظم رسالہ مخزن میں شمار 1905میں چھپی تھی یہ نظم اپنے دور میں خوب چرچا عام ہوئی تھی اگرچہ ہندو مسلم اتحاد کی تحریک و تبلیغ کے لحاظ سے ایسی دیگر نظموں سے زیادہ موثر ہے لیکن اس کا  کوئی اثر نہ لیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندو اپنی مسلم دشمن فطرت کی بنا پر اس قسم کی تبلیغ تحریک کا کوئی معمولی سا بھی حصہ لینے کو تیار نہ تھے 

حسن و عشق

یہ نظم بظاہر رومانی جذبے کے حامل معلوم ہوتی ہے لیکن علامہ نے اس میں در حقیقت تصوف کے اس نظریہ کی تبلیغ کی ہے کہ محبت ہی تخلیق عالم کی بنیادی علت اور اصل کاینات ہے بعض مغربی ادیبوں کے بقول علامہ نے اپنی نظم میں محبت کی جو خصوصیت اور مضمرات بیان کی ہیں وہ شیلے اور کیٹس کے خیالات سے ملتے جلتے ہیں

شکوہ

یہ نظم بانگ درا کی مشہور ترین نظم ہے علامہ نے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ منعقد اپریل 1911 میں پڑھی تھی شفاءالملک حکیم محمد حسن قرشی کے بقول جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی سحر انگیزی لے میں ندرت تخیل کے اس شاہکار کو پڑھنا شروع کیا تو سارا مجمع مسحور نظر آتا تھا دراصل علامہ نے سوئی ہوئی اور پستی کی شکار قوم کو بیدار کرنے کے لیے نادر انداز اختیار کیا یہ دور میں مسلمانوں کی دین سے غفلت اور ایک کام الہی و رسول اکرم کے احکام پر عمل نہ کرنے کا دور تھا لیکن ذہنی طور پر یہ لوگ خدا اور رسول اکرم کے خلاف ایک لفظ بھی کسی سے سننا گوارا نہ کرتے تھے اور لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے تھے چنانچہ اس نظم کے سنتے ہی نام نہاد ملاؤں نے اس کے خلاف بہت کچھ کہا تھا تاھم فہم والے  لوگوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ پیدا ہوا اور انہوں نے سوچا کہ اتنی اخلاقی جرات ایک  مسلمان میں کیوں اور کیسے پیدا ہوگی جو بے باک اور نڈر ہو کر کے خدا تعالی سے شکوہ کر رہا ہے آخر اس پر کس قدر غور کرنے سے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ وہ مسلمان ایک امر الہی سے غفلت برتنے کے باعث پستیوں اور  ذلت کا شکار ہے اور ابھی لوگ سوچ  ہی رہے تھے کہ علامہ کا جواب شکوہ سامنے آیا اور اس کے ہونے پر یکایک مسلمانوں کی ذہنیت میں انقلاب آیا اور کچھ ہی مدت میں ترقی کی راہیں کھل گئی اس نظم کے بعد مولانا دیدار علی نے اقبال پر کفر کا فتوی لگایا تھا

خضر راہ

اس  وقت 1919 میں ترکوں کے خلاف انگریزوں نے جو ظالمانہ رویہ اختیار کی اور عربوں نے انگریزوں کے فریب میں آکر ترکوں سے کھلی غداری کی تھی یہ نظم اس حوالے سے ہے علامہ نے یہ نظم 1922 میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں بڑی شدید جذبے کے ساتھ پڑھی تھی کہا جاتا ہے کہ پڑھتے وقت بار بار ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے تھے ایک جگہ پہنچ کر اتنا روئے کے آواز گلوگیر ہوگئی اور ہچکی بندھ گی اور سامعین کا بھی یہی عالم تھا تھا

طلوع اسلام

علامہ نے نہایت ہی پرامید لہجے میں یہ نظم کہیں انہیں یقین ہے کہ اگر مسلمان ایمان جوش و جذبہ سے کام لیں تو پھر وہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں اس نظم کا پس منظر 1932 کا واقعہ ہے جب مصطفی کمال پاشا نے ستاریہ  کی جنگ میں یونانیوں کو شکست دی اور ایک بار پھر پوری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان اب بھی زندہ ہیں اور دوسری طرف سمرنا  فتح کر کے  مسٹر گلیڈسٹن کے خاندان میں صف ماتم بچھا دی یہ نظم علامہ نے اس وقت کی جب ترکوں کی کامیابی سے انہیں بے حد مسرت ہوئی  ۔


Post a Comment

0 Comments