حسرت موہانی کی شاعری میں محبوب کا تصور کیسے تبدیل ہوا
HASRAT MOHANI |
حسرت کے تغزل میں حسن پرستی ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور یہ حسن پرستی کا احساس ان کے یہاں نمایاں ہے لیکن اس شخصیت پرستی کی نوعیت ان کے تغزل میں روایتی نہیں ہے اردو شاعری میں حسن پرستی کا جو تصور تھا اس میں حسرت نے نیا خون دوڑایا ہے حسرت کی غزل میں خارجی حسن کا بیان ہے ضرور لیکن احساس اس سے بھی زیادہ ہے غالب کی طرح وہ حسن کے خیالی پیکر تراشتے نہیں ہے بلکہ محسوس کرتے ہیں اور انکا یہ احساس محدود نہیں ہوتا ہر طرف ان کی نظریں جاتی ہیں وہ دور دور تک پہنچے ہیں اور ان کی یہی خصوصیت ان کے اس تصور حسن میں بھی تنوع اور ہمہ گیری پیدا کرتی ہے چند اشعار ملاحظہ کیجئے
اور اس دل میں کیا کیا ہوا سے دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کی مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی
ہم رضا شیوہ ہیں تاویل ستم خود کر لیں
کیا ہوا ان سے اگر بات بنائی نہ گئ
یہ بھی آداب محبت نے گوارا نہ کیا
ان کی تصویر بھی آنکھوں سے لگائی نہ گئی
آہ وہ آنکھ جو ہر سمت رہی صاعقہ پاش گئی
وہ جو مجھ سے کسی عنوان ملای نہ گئ
ہم سے پوچھا نہ گیا نام ونشان بھی ان کا
جستجو کی کوئی تمہید اٹھائی نہ گئی
دل کو تھا حوصلہ عرض تمنا سوا نہیں
سرگزشت شب ہجراں بھی سنائی نہ گئی
غم دوری نے کشاکش تو بہت کی لیکن
یاد ان کی دل حسرت سے بھلائی نہ گئی
0 Comments