کیا ھمیں احمد فراز کی شاعری
میں مزاحمت کا عصری شعور ملتا ہے
AHMED FARAZ |
اگر احمد فراز کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احمد فراز کی شاعری میں احتجاج ایک وقار اور متانت میں ملتی ہے انہوں نے جو لہجہ اپنائے وہ کاٹ دار ضرور ہے مگر اس میں بھی ایک تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے"" محاصرہ ""ایک ایسی نظم ہے کہ اس پورے عہد میں مزاحمتی شاعری کے حوالے سے کوئی اور ایسی نظم منظر عام پر نہیں آئ بڑی شاعری دراصل ہر زمانے میں اپنا جواز آپ ہوتی ہے فراز نے جب محاصرہ نظم لکھی تو اس وقت ایک سیاہ رات چور دروازے سے ہماری زندگیوں میں در آئی تھی یقین کو گماں نے مخمصے کی سولی پر لٹکا دیا تھا آواز تو کیا سایہ تک زندانوں میں دھکیل دیے گئے گئے تھے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نظم کا لہجہ کتنا پراسرار اور بیان کتنا دلنشین ہے فارسی اردو کے امتزاج نے ایک الگ لطف سے ہم کنار کیا ہے لفظی دروبست سے لے کر علامت سازی اور معنی آفرینی میں کمال کی ہنر مندی نظر آتی ہے مصرعوں کی بنت میں اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے یہاں ان کی یہ پوری نظم کے چند اشعار میں آپ کو بیان کر دیتا ہوں تاکہ دیکھ سکیں کہ فراز کی شاعری میں مزاحمت کا عصری شعور کیسے نظر آتا ہے
میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر مینارے پر
کماں بدست ستادہ ھیں عسکری اس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
میں وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امید لطفِ ایوان کج کلاہ میں ہیں
معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو
مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
قلندران وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے پاس ہے کون آس پاس تو دیکھو
سو شرط یہ ہے جو جان کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
0 Comments