مراسلہ نگاری|| پی پی ایس سی2022 کا سلیبس||مرزا غالب کی خطوط نگاری

 

ہم 

نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا


 Mirza Asadullah Baig Khan Ghalib

مرزا غالب کی خطوط نگاری

غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے تو ان کا پہلا مطلب یہ تھا کہ میں نے خط کو بیانیہ نہیں بلکہ مکالمے کے انداز میں لکھا ہے یعنی میں خط اس طرح نہیں لکھتا کہ گویا اپنے حالات یا روداد لکھ رہا ہوں یا اپنے بارے میں خبریں سنا رہا ہوں بلکہ میں اسطرح لکھتا ہوں گویا میں اپنے مکتوب الیہ سے باتیں کر رہا ہوں اور باتوں باتوں میں اپنے حالات بتا رہا ہوں یہ بات صحیح تو ہے لیکن پوری طرح صحیح نہیں غالب کے بہت سے خطوں میں بلکہ زیادہ تر خطوں میں مکالمے کا اندازہ نہیں ہے بلکہ ان کے بعض خطوط میں بیان اور روداد نگاری کے بہترین نمونے ہیں غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے ایک نیا طرز ایجاد کیا ہے کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے تو یہ بات دراصل عمومی بیان نہیں تھی بلکہ بعض ہی خطوط کے لئے صحیح تھی اور خاص کر اس خط کے لئے صحیح تھی جو غالبا اس وقت لکھ رہے تیعنی خانم علی مہر کے نام خط جس میں تک یہ فقرہ آیا ہے یہ بھی تھا کہ غالب اپنے دوستوں کے خطوں سے اتنے خوش ہوتے تھے گویا خط نہیں بلکہ مراسلہ نگار خود مجسم ہو کر میرے سامنے آگیا ہے لہذا ان معنی میں بھی ان کی نظر میں مراسلے کو مکالمہ کا درجہ حاصل تھا مراسلہ کو مکالمہ بنا دینے سے غالب کا یہ بھی تھا کہ لمبے چوڑے القاب و آداب سلام دعا وغیرہ کے فقرے جو عام طور پر خطوں میں لکھے جاتے ہیں میں انہیں نہیں لکھتا غالب کی یہ بات تقریباً پوری طرح درست ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ غالب اپنے خطوں کے آغاز کو القاب سلام اور دعا سے بالکل خالی کر دیا ہو یہ ضرور ہے کہ القاب سلام دعا وغیرہ غالب نے جہاں لکھی بھی ہیں تو انہیں کم سے کم الفاظ میں لکھا ہے حتی کہ نوابان رامپور یوسف علی خان ناظم اور نواب کلب علی خان کو بھی عموما بہت مختصر القاب اور سلام لکھا ہے مثلا

 حضرت ولی نعمت آیہ رحمت سلامت( بنام یوسف علی خان)

 جناب عالی بنام ( یوسف علی خان )

 ولی نعمت، آیہ رحمت، سلامت "(بنام  کلب علی خان

یہ خیال رہے

 کہ القاب اور اداب اور دعا بہت مختصر رکھنے کے باوجود اوپر کی مثالوں میں غالب نے کافی کا پورا اہتمام کیا ہے 

Post a Comment

1 Comments