ہم
نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا
Mirza Asadullah Baig Khan Ghalib |
مرزا غالب کی خطوط نگاری
غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے تو ان کا پہلا مطلب یہ تھا کہ میں نے خط کو بیانیہ نہیں بلکہ مکالمے کے انداز میں لکھا ہے یعنی میں خط اس طرح نہیں لکھتا کہ گویا اپنے حالات یا روداد لکھ رہا ہوں یا اپنے بارے میں خبریں سنا رہا ہوں بلکہ میں اسطرح لکھتا ہوں گویا میں اپنے مکتوب الیہ سے باتیں کر رہا ہوں اور باتوں باتوں میں اپنے حالات بتا رہا ہوں یہ بات صحیح تو ہے لیکن پوری طرح صحیح نہیں غالب کے بہت سے خطوں میں بلکہ زیادہ تر خطوں میں مکالمے کا اندازہ نہیں ہے بلکہ ان کے بعض خطوط میں بیان اور روداد نگاری کے بہترین نمونے ہیں غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے ایک نیا طرز ایجاد کیا ہے کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے تو یہ بات دراصل عمومی بیان نہیں تھی بلکہ بعض ہی خطوط کے لئے صحیح تھی اور خاص کر اس خط کے لئے صحیح تھی جو غالبا اس وقت لکھ رہے تیعنی خانم علی مہر کے نام خط جس میں تک یہ فقرہ آیا ہے یہ بھی تھا کہ غالب اپنے دوستوں کے خطوں سے اتنے خوش ہوتے تھے گویا خط نہیں بلکہ مراسلہ نگار خود مجسم ہو کر میرے سامنے آگیا ہے لہذا ان معنی میں بھی ان کی نظر میں مراسلے کو مکالمہ کا درجہ حاصل تھا مراسلہ کو مکالمہ بنا دینے سے غالب کا یہ بھی تھا کہ لمبے چوڑے القاب و آداب سلام دعا وغیرہ کے فقرے جو عام طور پر خطوں میں لکھے جاتے ہیں میں انہیں نہیں لکھتا غالب کی یہ بات تقریباً پوری طرح درست ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ غالب اپنے خطوں کے آغاز کو القاب سلام اور دعا سے بالکل خالی کر دیا ہو یہ ضرور ہے کہ القاب سلام دعا وغیرہ غالب نے جہاں لکھی بھی ہیں تو انہیں کم سے کم الفاظ میں لکھا ہے حتی کہ نوابان رامپور یوسف علی خان ناظم اور نواب کلب علی خان کو بھی عموما بہت مختصر القاب اور سلام لکھا ہے مثلا
حضرت ولی نعمت آیہ رحمت سلامت( بنام یوسف علی خان)
جناب عالی بنام ( یوسف علی خان )
ولی نعمت، آیہ رحمت، سلامت "(بنام کلب علی خان)
یہ خیال رہے
کہ القاب اور اداب اور دعا بہت مختصر رکھنے کے باوجود اوپر کی مثالوں میں غالب نے کافی کا پورا اہتمام کیا ہے
1 Comments
Bahut acha Kalam likhaa hy
ReplyDelete