ابن انشاء کی مزاح نگاری
Ibn-E-Insha |
ابن انشاء کی زبان شگفتہ رواں اور دلکش ہے ان کی تحریروں میں مزاح ایک زیر زمین لہر کی طرح جاری وساری رہتا ہے ایک دل چسپ اقتباس ملاحظہ کیجئے
لوگوں کو چاہیے کہ سچے مسلمان بنیں اگر ہماری موجودگی میں کسی وجہ سے نہیں بن سکتے تو ہمارے بعد بنیں رمضان شریف کی آمد آمد ہے دن میں ایسے ہوٹلوں میں جائیں جو رمضان شریف کے احترام کے آداب جانتے ہیں اور باہر نکلیں تو اچھی طرح منہ پونچھ کر نکلا کریں
اس کے علاوہ کراچی کارپوریشن کے ہیلتھ آفیسر کے لئے خصوصی ذاتی ہدایات تھیں کہ
علامہ اقبال ٹاؤن میں ہمارے گھر کے ساتھ جو کوڑے کا فلک بوس ڈھیر ہے وہاں سے نہ ہٹے ورنہ ہم اجنبی دوستوں کو اپنے گھر کی اور کیا نشانی بتایا کریں گے اب تو لوگ دور دور سے بلا کسی سے دریافت کیے محض بو سونگھتے وہاں پہنچ جاتے ہیں
بلاشبہ یہ دلچسپ اسلوب بیان ابن انشاء جیسے مزاح نگاری کا نہ صرف حصہ ہے بلکہ دراصل ان کا اصل فن ہے جسے ہم طنز و ظرافت کی پرکھ پر پورا اترتا دیکھتے ہیں اردو ادب میں اور کتنے ایسے ادیب ہیں جن کی تحریریں ادب کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی اس سماجی اور معاشرتی طرز کی حامل ہے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ طنز اور مزاح کا یہ شگفتہ مزاج ابن انشاء ہی سے حاصل ہے جس کا کسی اور سے موازنہ کرنا بے سود ہے ہے مندرجہ بالا اقتباسات ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے سفرنامہ کے آغاز ہی میں وہ کس خوبصورتی سے ہنسی ہنسی میں ایک دردمند سوشل نقاد کا فریضہ ادا کر رہے ہیں جو ہماری قومی زندگی کے سارے بدنما گوشوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے لانے میں پوری طرح کامیاب ہے ابن انشا نے اپنے اس سفرنامے میں سب سے پہلے جرمنی اور لندن کے صفوں کی روداد بیان کی ہے اور معمول کتاب کے کئ صفحے ہوٹلوں کے کمروں یا غسل خانوں کی تفصیلات کی نذر کردیئے گئے ہیں لیکن یہاں ایک بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان کے ذکر میں وہ یکسانیت کو قریب نہیں آنے دیتے ہر بار ان کی شوخ آنکھ اس گھسے پٹے موضوع پر اس نئے اور انوکھے زاویے سے پڑتی ہے کہ ان کی بذلہ سنجی کی داد دیے بغیر چارہ نہیں مثلا اس بار انہوں نے غیر ملکیوں کے لیے رخت سفر باندھا تو بقول خود
فرینکفرٹ میں ہم نے غسل خانے جانا تھا تو اس کا دروازہ ہی نہ ملا ہم نے منیجر کو بلا کر کہا کہ کہاں ہے دروازہ اس نے کہا کہیں بھی نہیں ہے کیونکہ آپ کے کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں ہے اس پر ہم نے کہا جناب ہمیں غسل خانہ چاہیے اس کے ساتھ کمرہ ہو یا نہ ہو کچھ پروا نہیں ہم اس خانے کے تخت طاؤس پر بیٹھ کر غور و فکر کرتے ہوئے وقت گزاریں گے
ایسی شگفتگی تحریر ہر ایک کے بس کی بات نہیں کہ تہذیبی پابندیوں کی سوا خانوں میں جکڑے ہوئے ہونے کے باوجود انہیں بات کہنے کا لطف سلیقہ آتا ہے جو ہر ماحول کی عکاسی پر قادر ہے ان سب تحریروں میں طنز و ظرافت کی چاہت ھی اصل چیز ہے ورنہ سیر و سفر کی حیثیت بالکل ثانوی رہ گئی ہے
یہ سچ ہے کہ ہمارے حساب سے اہل فرنگ میں نیکی اور نیک چلنی کا فقدان ہے کیونکہ اکثر شراب پیتے ہیں گوشت بھی حلال یعنی ذبیح کا نہیں کھاتے دکان داروں کے ہاتھوں پر نماز کے گٹے اور ہاتھوں میں تسبیح نہیں یعنی ان کی عاقبت کا معاملہ مشکوک ہے لیکن منافق نہیں ہے چائے کی پتی میں چنے کا چھلکا نہیں ہوتا ہیں چینی دکانوں میں پلک جھپکنے میں غیب نہیں ہوتی نہ آٹا کہیں جاتا ہے حتی کے لوگ مین ہولوں کے ڈھکنے تک نہیں چراتے یہاں وہ اہل فرنگ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ہم وطنوں پر گہرا طنز کر جاتے ہیں جس سے نہ صرف مذاق کی کیفیت جنم لیتی ہے بلکہ ہم سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں
0 Comments