Nasir Kazmi |
ناصر کاظمی ایک معروف شاعر اور ناول نگار ہیں جن کی ادبی مخلوقیت میں اہم کردار رہے ہیں۔ ان کے کام میں انسانی حالات، معاشرتی مسائل اور فلسفی موضوعات کا احساس بہت گہرا ہوتا ہے۔ ان کی شاعری اور ناولز میں معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر زور دیا گیا ہے۔ ناصر کاظمی کے ادبی کام کا اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانی حقائق کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنے کام میں عمومی انسانیت کے مسائل کو ایک نیا روپ دیتے ہیں۔
ناصر کاظمی کا حلیہ
سر سفید ، آنکھیں خوشی کی منتظر، دماغ
خیالات کا مجموعہ، قد درمیان، ہاتھ قلم
صورت چاند جیسی، موچھیں چھوٹی چھوٹی
دل غم زدہ
پیدائش
ناصر کاظمی کی پیدائش 8 دسمبر 1925 انبالہ شہر میں ہوئی اس حوالے سے وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں میری تاریخ پیدائش 8 دسمبر 1925 ہے اور میں جمعرات کو پیدا ہوا تھا وہ اپنے انبالہ شہر سے محبت کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی
ناصر کاظمی کے والد کا نام محمد سلطان کاظمی تھا وہ رائل انڈین آرمی میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ ناصر کاظمی چار بہن بھائی تھے بڑے بھائی کا نام حامد حسین تھا اور چھوٹے بھائی کا نام عنصر رضا تھا اور ایک بہن تھی جس کا نام حمیدہ بانو تھا
بچپن
ناصر ایک ایسا لاڈلا بچہ تھا جسے بچپن ہی سے پیارا اور توجہ کا عادی بنا دیا گیا تھا اسے والدین کی بے حد محبت کے علاؤہ ننہال والوں کی بے انتہا شفقت بھی ملی بچپن کے والے سے ناصر کاظمی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں
میری والدہ اپنے 17 بہن بھائیوں میں سے ایک تھیں اور میں اپنے ننہال کا چشم و چراغ تھا میرا بچپن شہزادوں کی طرح گزرا میری عمر جب 6برس تھی تو دو خچروں والا تانگہ میرے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا محمد دین میرا چپڑاسی تھا وہ مجھے کندھوں پر بٹھا کر کمپنی باغ کی سیر کراتا
انہوں نے بچپن میں چھوٹی چھوٹی شوخیوں سے لے کر بڑی بڑی اور خطر ناک شرارتوں تک سبھی کچھ کیا خطرناک شرارتوں کے حوالے سے اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں نوشہرہ چھاؤنی میں والد صاحب کا تبادلہ ہوگیا وہاں ہم شہر سے دور ایک سرکاری بنگلے میں رہتے تھے رات کو گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور ہمیں سونے نہ دیتے ایک دن میں ریچھ کے غار میں اپنے دوستوں چلا گیا اور دوست مجھے تنہا چھوڑ کر چلے آئے اگر والد صاحب وقت پہ نہ آتے تو اردو ادب ایک شاعر سے محروم ہو جاتا
تعلیم
ناصر کاظمی اپنی بتدائی تعلیم کے حوالے سے اپنی ڈائری لکھتے ہیں
” میں نے پانچویں جماعت تک مشن ہائی گرلز اسکول میں اور باقی والدہ مرحومہ کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی 12 سال کی عمر میں نے قرآن ختم کر لیا تھا “
ناصر نے چھٹی جماعت نیشنل اسکول پشاور سے اور میٹرک مسلم ہائی اسکول انبالہ سے کیا اور ایف اے کا امتحان اسلامیہ کالج لاہور سے پاس کیا پھر انہوں نے بی اے کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر ناسازگار حالات کی وجہ سے ناصر نے بنا بی اے پورا کیے تعلیم ترک کردی
پہلا شعر
اپنے پہلے شعر کے حوالے سے ناصر کاظمی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں جب میں نے پہلا شعر کہا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے دنیا کی قیمتی چیز حاصل کر لی ہوں اتنی خوشی ہوئی کہ شاید اس سے پہلے مجھے کبھی خوشی نہ ملی ہوں
پہلا شعر
قبول ہے جنہیں غم بھی تیری خوشی کے لیے
وہ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی کے لیے
عشقِ اور ناصر
یوں تو ایک شاعر کو کئی چیزوں سے محبت ہوتی ہے اور یہ محبتیں اس کے جذبات و احساسات کی قوتوں کو برقرار رکھتی ہے لیکن وہ محبت جو ہر شاعر اور خصوصاً رومانوی شعراء کے نزدیک اصل زندگی ہے وہ ان کی قوتوں کا سر چشمہ ہے وہ ہے اپنی جنس کی محبت ناصر کاظمی کے ایک قریبی دوست اور کالج کے ساتھی جیلانی کامران نے بتایا کہ اولین محبت کی جو باتیں اس نے مجھے سنائیں ان میں حمیرا کا نام آیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ حمیرا انہوں ناموں میں سے ایک نام تھا جن میں سلمیٰ بھی آتا رہا لیکن جب وہ حمیرا کا ذکر کرتا تو رونے لگتا وہ ایک رات تو وہ اسلامیہ کالج روڈ کے کاریڈور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا دیواروں سے لپٹ رہا تھا اور حمیرا حمیرا کہہ رہ تھا یہ 1944 کا واقعہ ہے ناصر اسے سلمیٰ کے فرضی نام سے یاد کرتے تھے۔ یہ عشق درد بن کر ان کے وجود میں گُھل گیا اور زندگی بھر ان کو گھُلاتا رہا
ملازمت
ناصر کاظمی کو پائیلٹ بنے کا شوق تھا۔ R.I.A.F اس کے لیے انھوں نے پائیلٹ کا امتحان دیا اس میں کامیاب ہوئے لیکن طبی معائنے کے بعد انھیں رد کر دیا گیا ۔ اس سخت مر حلے پر جب کہاں سرکاری ملازمت کا ملنا ممکن نہ تھا ناصر کا ادبی ذوق کچھ کام آیا ، انہیں ریڈیو میں ملازمت ملی اور اور "اوراق نو"، ’’ہمایوں‘‘ اور ’’خیال‘‘ کی ادارت کر تے رہے ۔ 6 ستمبر 1949 ءکوخیال کی ادارت کے بعد ولیج ایڈمیں ملازمت کی ۔ محکمہ ایگریکلچرل انفرمیشن میں ٹریننگ اسپیشلسٹ کی حیثیت سے دو سال کا کیا۔ 22 جون 1964 ء کو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ پھر یکم اگست 1964 ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہوگئے
شادی
ناصر کاظمی کی شادی 7 جولائی 1952 میں ہوئی ان کی بیوی کا نام شفیقہ تھا اسکے بطن میں سے دو بچے ہوئے
مشاغل اورناصر
وہ بچپن ہی سے جن مشاغل کی جانب مائل تھا وہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دیہاتی ماحول میں رہتے ہوئے اس سے لطف انداز ہونا، دریا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے اتار چڑھاؤ سے خوش ہونا، گھڑ سواری ، شکار کھیلنا، پہاڑوں کا نظارہ کرنا، پھولوں، درختوں، کلیوں اور پتوں کو دیکھ کر قدرت کی کرشمہ سازی کو داد دینا اور قدرت کے حسین نظاروں ، سورج، چاند، طلوع و غروب کے مناظر، صبح و شام کے مناظر،آسمان، ستاروں ، بارش، سردی اور گرمی کے اتار چڑھاؤ سے ناصرؔ اور شاعری لازم و ملزوم ہوگئے۔ ان کی خالہ صغرا بی بی ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتی ہیں
" ہم نے اس کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ پڑھ رہا ہو، اسکول جاتا تو حاضری لگوا لیتا اور دیوار پھاند کر وہ اور اس کا دوست افتخار بھاگ جاتے ، کبھی کسی باغ میں جا کر پیر کے درخت پر چڑھ کر بیر توڑتے تو بھی امرود کے درخت پر چڑھ کر امرود کھاتے “
ناصر اور شاعری
شاعری کے بارے میں ناصر ؔ کا کہنا تھا کہ ’شاعری مردہ لمحوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ وقت جو مر گیا جسے کوئی بھی زندہ نہیں کرسکتا ، شاعر زندہ کرسکتا ہے ۔ شاعری صرف مصرے لکھنے کا نام نہیں بلکہ خیالات و افکار کو اچھوتے اور دلکش انداز سے شعر کا روپ دینے کا نام شاعری ہے۔
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
کیوں ٹہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
ناصر اور ماضی کی یادیں
ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں سکتے ۔ کئی شعر ایسے گزرے ہیں جو ماضی سے ذہنی اور جذباتی رشتہ رکھتے ہیں اور حال کے انتشار اور درد و کرب سے نجات پانے کی سعی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ماضیت " کھائیں ہوؤں کی جستجو " بن جاتی ہے۔کیٹس عہد وسطی کے رنگین محلوں اور خوب صورت عورتوں کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ غالب کو بھی ماضی سے لگاؤ ہے ۔
یاد تھی ہم کو بھی، رنگا رنگ بزم آرائیاں
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
ناصر کے یہاں " پرانی صحبتیں " احساس زیاں کو جنم دیتی ہیں
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
ناصر کی غزل گوئی
ہجرت، یاد ماضی، خود کو خرچ کرنا، شب بیداری، غم روزگار ، غم عشقِ ، فطرت پسندی ، رنگ میر
ناصر کاظمی کی غزل گوئی ان کی ادبی شانخت میں ایک اہم پہلو ہے۔ ان کی غزلوں میں عموماً محبت، غم، خوشی، انتظار، امید اور ناامیدی جیسے احساسات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں لفظوں کا انتخاب اور ترتیب بہت ہی موزون اور خوبصورت ہوتا ہے جو قارئین کے دلوں میں گہرے اثرات چھو جاتا ہے۔
ناصر کاظمی کی غزلوں میں عام زندگی کے معاملات، محبت، انسانی علاقائی، اور معاشرتی مسائل پر بہترین انداز میں تبصرہ کیا جاتا ہے جو شاعری کو ایک خاص مقام پر لے جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں موجودہ حالات اور معاشرتی موضوعات کو بہترین انداز میں پیش کیا جاتا ہے جو قارئین کے ساتھ بہتر انس ہوتا ہے۔
ناصر کاظمی کی غزلوں میں محبوب کا تصور بہت اہم ہے۔ ان کی شاعری میں محبوب عام طور پر ایک موجودہ یا خیالی شخص ہوتا ہے، جس کے لئے شاعر کی شاعری میں عاطفت اور احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ محبوب کو فراز کی شاعری میں عالمی اور انسانیت کے معیاروں کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے، جس پر شاعر کی محبت اور احساسات کا موضوع منعکس ہوتا ہے۔
ناصر کاظمی کی غزلوں میں "یاد ماضی کا زکر" ایک اہم موضوع ہے جو ان کی شاعری کا ایک مرکزی تصور بنا ہوا ہے۔ وقت کی گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی یادیں ہمیشہ دل کو چھو جاتی ہیں اور یہ احساس کسی بھی انسان کو نوسٹلجیا (یادوں کی طرف مشتاق ہونے کی حالت) کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
ناصر کاظمی کی غزلوں میں "یاد ماضی کا زکر" کا موضوع اس لیے بہت مقبول ہے کہ ان کی شاعری میں عموماً حالات اور احوالات کو بیان کرتے وقت ماضی کی یادیں بھی شاعر کی نظر میں آتی ہیں۔ ان کی شاعری میں ماضی کی یادیں عموماً خوبصورت اور اہم مواقع پر مبنی ہوتی ہیں جو شاعر کو انسانی حسین و حسین کی یاد میں لے جاتی ہیں۔
ناصر کاظمی کی شاعری میں "یاد ماضی کا زکر" کے ذریعے انسانیت کی مختلف پہلوؤں کو بہترین انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں ماضی کی یادیں انسانی زندگی کی حقیقتوں اور معنوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں، جو شاعری کو ایک نیا رنگ اور معنویت دیتی ہیں۔
ناصر کاظمی کی غزلوں کی شعری خصوصیات
ناصر کاظمی کی غزلوں کی شعری خصوصیات کو ان کی شاعری کی روح کے تحت تشریح کیا جا سکتا ہے:
**عاشقانہ جذبات**:
ان کی غزلوں میں عاشقانہ جذبات کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ محبت، غم، خوشی، انتظار، امید اور ناامیدی جیسے احساسات کو ان کی شاعری میں عمق سے پیش کیا گیا ہے۔
**زبان کی بہترین استعمال**:
ناصر کاظمی کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب اور ترتیب بہت ہی موزون اور خوبصورت ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں میں زبان کی بہترین استعمال کے ذریعے احساسات کو اظہار کیا جاتا ہے۔
**موضوعات کی وسعت**
: ناصر کاظمی کی شاعری میں مختلف موضوعات پر غور کیا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں محبت، موت، زندگی، خواب، انتظار، اور معاشرتی مسائل پر بھی بات کی گئی ہے۔
**معنوی پیغامات**:
ان کی شاعری میں معنوی پیغامات اور عبرتی سبق بھی چھپے ہوتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں انسانیت، محبت، امید، اور معاشرتی بنیادوں کی اہمیت پر غور کیا جاتا ہے۔
**غزلوں کی بناوٹ**:
ناصر کاظمی کی غزلوں میں معمولاً دو شرطوں پر مبنی بناوٹ پائی جاتی ہے، جس میں پہلی مصرعہ اور آخری مصرعہ کا تعلق ہوتا ہے۔ اس بناوٹ کی وجہ سے ان کی غزلوں میں ایک مکمل داستان کی مانندی محسوس ہوتی ہے۔
تصنیفات
برگِ نَے" ”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کی غزلوں کے مجموعے اور ”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ہے۔ سٔر کی چھایا ان کا منظوم ڈراما ہے۔ برگِ نَے ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا جو 1952ءمیں شائع ہوا۔
برگ نے
ناصر کاظمی کی شاعری تصنیف برگ نے ان کی شخصیت میں ایک نیا رنگ بھر دیا۔ ان کی شاعری میں عموماً انسانیت، معاشرت، محبت اور انسانی حالات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے اشعار میں ایک عمق اور پر احساس نگاہ بنیادی انسانی خصوصیات کو پردہ فاش کرتی ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک خصوصی پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرتی مسائل اور انسانی احساسات کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے اشعار اور غزلوں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے، جو قارئین کے دلوں کو چھو لیتا ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری کے اشعار مختلف مواقع پر نیک انگیز، پر امید اور محبت بھرے پیغامات دیتے ہیں جو قارئین کو انسانیت اور محبت کے اہمیت پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
پہلی بارش
ناصر کاظمی کی شاعری تصنیف "پہلی بارش" ایک خوبصورت اور معنوی کارگر نظم ہے جو موسم بارش کی خوبصورتی اور اس کے متعلقہ احساسات کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے بارش کے آغاز کی تازگی، مٹی کی خوشبو، پودوں کی سرخی، اور ماحول کی تازگی کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
پہلی بارش کا خوبصورت مظاہرہ کرتے ہوئے، شاعر نے اس کو ایک نیا جنم دینے والی خوبصورت اور طاقتور قوت تصور کیا ہے۔ وہ بارش کے ہر قطرے کو ایک نئی زندگی اور امید کا پیغام سمجھتے ہیں۔ اس نظم میں بارش کی برسات نے زمین کو زندگی دی ہے اور اس کے متعلقہ احساسات کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔
نشاطِ خواب
"نشاطِ خواب" ناصر کاظمی کی ایک معروف شاعری تصنیف ہے جس میں انہوں نے اپنے اشعار کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس تصنیف میں ناصر کاظمی نے مختلف موضوعات پر اپنے احساسات کو بیان کیا ہے۔
"نشاطِ خواب" میں انسانی حالات، معاشرتی مسائل، محبت، اور انسانیت کے مختلف پہلوؤں پر اشعار کو مرکوز کیا گیا ہے۔ اس تصنیف میں ناصر کاظمی نے انسان کی زندگی کے مختلف حالات کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے، جو قارئین کے دلوں میں مختلف احساسات پیدا کرتا ہے۔
"نشاطِ خواب" میں ناصر کاظمی کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اشعار میں انسانیت اور محبت کے پیغامات کو بہترین طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کے اشعار اور غزلوں میں زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے، جو قارئین کو انسانیت اور محبت کے اہمیت پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
سٔر کی چھایا
ناصر کاظمی کا منظوم ڈراما "سُر" ان کی شاعری تصنیف برگ کی ایک بہت ہی خوبصورت تصنیف ہے۔ یہ منظوم ڈراما ان کی معروف تصنیفات میں شامل ہے جو ان کی ادبی شانخت کا ایک نیا مرحلہ ہے۔ "سُر" میں ناصر کاظمی نے ایک خیالی دنیا کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے، جہاں کے مختلف کردار اور واقعات کو انسانی حس کے زاویے سے دکھایا گیا ہے۔
"سُر" کا منظوم ڈراما ایک تاریخی مناظر کو دکھاتا ہے جہاں فرض کیا گیا ہے کہ زمانہ قدیم ہے۔ اس میں مختلف کردار ہیں جو اپنی زندگیوں کے مقاصد اور تلاشوں کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ داستان ایک بہترین روشنی میں دکھایا گیا ہے جہاں کے مختلف حالات، احساسات، اور نزاکتوں کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
"سُر" میں ناصر کاظمی نے انسانی حقائق، معاشرتی مسائل، اور فلسفی موضوعات پر بہترین انداز میں غور کیا ہے۔ ان کی شاعری کے اشعار اور داستانی پٹھوں میں ایک بہترین انسانیت کے پیغام کو بیان کیا گیا ہے جو قارئین کو انسانیت اور معاشرتی بنیادوں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
آخری وقت
۔ 26 سال کی عمر سے ہی ان کو دل کی بیماری تھی لیکن کبھی پرہیز نہیں کیا۔ انتہائی تیز چونے کے پان کھاتے۔ ایک کے بعد ایک سگرٹ سلگاتے، ہوٹلوں پر جا کر نان، مرغ، اور کباب کھاتے اور دن میں درجنوں بار چائے پیتے۔ رات بھر آوارہ گردی کرتے۔ ان بے اعتدالیوں کی وجہ سے ان کو 1971ء میں معدہ کا کینسر ہو گیا اور 2 مارچ 1972 کو ان کا انتقال ہو گیا۔
حرفِ آخر
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
آج ناصر کو گزرے کئی برس ہو چکے۔ ناصر نے غزل کی زمین ہی ہموار نہیں کی بلکہ ایسی عمارت بھی کھڑی کر کے دکھائی جس کی بلندی کو اس کے بعد کوئی دوسرا شاعر ابھی تک نہیں چھو سکا۔ ناصر کے بعد غزل میں جتنے تجربے ہوئے وہ کبھی نہ ہو پاتے اگر ناصر ایسی مضبوط بنیاد فراہم نہ کرتا۔ آج بھی غزل ہمارا سب سے تگڑا طرز اظہار ہے جس کی پشت پر ناصر کی موجودگی سب سے اہم واقعہ ہے۔ جو بساط ناصر نے بچھائی اس پہ کئی پیادے آئے لیکن بادشاہ کے روپ میں آج بھی ناصر پورے اعتماد سے کھڑا ہے۔
0 Comments