Allama Iqbal||Allama iqbal Biography||Iqbal Poetry||Allama Iqbal Poetry in Urdu

علامہ محمد اقبال


 Allama Iqbal

    

       کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی

          کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

علامہ اقبال سے میرا تعارف ۲۰۱۹ میں ہوا تعارف بھی ان کی طویل نظمیں سے ہوا یعنی شکوہ اور جواب شکوہ سے تب میرے دل سے آواز آئی کہ علامہ اقبال بڑا شاعر ہے دوستوں برصغیر پاک و ہند میں یوں تو بے شمار عظیم ہستیوں نے جنم لیا جنہوں نے آپ اپنی سوچ سے فکر، خیالات، تصورات کے ذریعے مسلمانان ہند کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ان ہی نامور ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ اقبال کا ہے جن کو اہل پاک و ہند مفکر پاکستان اور شاعر مشرق کے نام سے جانتے ہیں جب کہ عالم اسلام حکیم الامت کے نام سے یاد کرتا ہے دوستوں اب میں آپ کو علامہ اقبال کا تصور چند سطروں میں کروا دیتا ہوں

                   علامہ اقبال کا حلیہ

      بال لمبے لمبے، چمکتی آنکھیں ، روشن دماغ

     قد آور ، ہاتھ قلم ، دل غم زدہ ، صحت خوب

     و خیال ، چھوٹی چھوٹی مونچھیں 

                     پیدائش اور نام 

آپ کا اصل نام محمد اقبال تھاآپ 9 نومبر 1877  کو شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے آپ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں

      ڈاکٹر علامہ محمد کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر

    ۱۸۷۷ ء بمطابق ۳ ذی القعدہ ۱۶۹۴ھ ہے اس کے علاؤہ 

  جتنی تاریخیں اور سنین مختلف کتابوں میں نظر

    آتے ہیں نہیں غلط سمجھا جائے 


                       والد اور والدہ

Sheikh Noor Muhammad
Imam Bibi

ڈاکٹر علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتی تھیں امام بی بی کا انتقال ۱۹۱۵ میں ہوا ان کا مزار میں سیالکوٹ ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر علامہ اقبال کی والدہ کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں

           اقبال کی والدہ امام بی بی کوئی سند

          نہیں رکھتی تھیں نہایت سلیقہ مند اور

         منظم کار خاتون تھیں ان کے حسن سلوک

       ایثار محبت کے اپنے غیر سبھی گرویدہ تھے

        وہ ضرورت مندوں کی مدد ایسے کرتی کہ

         کسی کو اس کے متعلق خبر نہ ہو

ڈاکٹر علامہ اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا ان کو میاں جی کے نام سے بھی پکار جاتا تھا وہ اردو فارسی کی کتابیں باآسانی پڑھ لیتے تھے ان کا انتقال ۱۹۲۹ میں ہوا ان کا مزار سیالکوٹ میں ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر علامہ اقبال کی والد کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں

         روشن آنکھیں اور نورانی چہرہ اچھے قد آور

          تھے اعلیٰ ظرف کے مالک اور ان کی طبیعت

          میں سادہ پن موجود تھا

                           بہن بھائی 

شیخ نور محمد کی شادی امام بی بی سے ہوئی اور ان سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے پیدا ہوئے ۔ بڑے بیٹے کا نام شیخ عطا محمد اور چھوٹے کا نام شیخ محمد اقبالؔ رکھا گیا منجھلہ بیٹا پیدائش ہی کے وقت فوت ہو گیا        

                               بچپن

بچپن میں سید زکی اور خوشیا اقبال کے قریبی دوست تھے۔ زکی آپ کے استاد مکرم سید میر حسن کے بیٹے تھے۔ اقبال ان کے ساتھ کبوتر بازی اور شطرنج کے شوقین تھے۔ دوست اقبال کو بالا اور کچھ بابا کہتے۔ خوشیا تو جگت چاچا تھا جو عمر میں اقبال سے شاید بڑے تھے ،مگر علامہ کی وفات کے بعد بھی زندہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار میں اقبال سے کہتا تھا کہ بالے یار چھوڑ ہم کس مصیبت میں پڑے ہیں کوئی چج کا کام کریں تو بالا عجیب گفتگو کرتا۔ وہ کہتا خوشیا کبوتروں کو نیلے آسمان پر اوپر سے اوپر جاتے دیکھ کر آسمان کی بے حد وسعتوں میں اڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ پرواز کر رہا ہوں میرے اندر عجیب و غریب سوچ اور جوش برپا ہوتا ہے۔

                        ابتدائی تعلیم

ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنی بتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی شیخ نور محمد کو قرآن پاک سے خاص لگاؤ تھا یہی لگاؤ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر علامہ اقبال کو بھی عطا فرمایا علامہ اقبال نے بتدائی تعلیم اور تربیت ایک دینی مدرسے سے ہوئی جس کے بعد آپ سیالکوٹ کے مشن ہائی اسکول میں داخل ہوئے ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ان کی بتدائی تعلیم کے حوالے سے لکھتے ہیں

        اقبال کی بتدائی تعلیم قرآن مجید کے مطالعے

        سے شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ چند

       عربی اور فارسی کی کتب مکتب میں پڑھیں

                  میر حسن اور اقبال

مولوی سید میر حسن کی وجہ شہرت اُن کے نامور شاگرد علامہ محمد اقبال ہیں۔ محمد اقبال نے آپ سے عربی زبان اور فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ محمد اقبال میں جذبہ شاعری کو بیدار کرنے والے میر حسن ہی تھے۔ محمد اقبال کی ابتدائی شاعری میں میر حسن کی تعلیمات کا اثر نظر آتا ہے۔ 1923ء میں جب تاجِ برطانیہ کی جانب سے محمد اقبال کو سر (Sir) کا خطاب دیا جانے لگا تو اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اُن کے استاد (مولوی میر حسن) کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے وگرنہ وہ سر (Sir) کا خطاب قبول نہیں کریں گے۔ لیکن انگریز گورنر جنرل نے اصرار کیا کہ اُنہوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی جس کے پیش نظر یہ خطاب نہیں دیا جاسکتا۔ محمد اقبال نے کہا: "میں خود اُن کی تصنیف ہوں"۔ اِس پر برطانوی حکومت کو مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینا ہی پڑا

                             تعلیم

علامہ اقبال نے ۶ مئی ۱۸۹۳ میں اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایف اے کا امتحان ۱۸۹۵ میں اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ میں گورنمنٹ کالج لاہور سے سکینڈ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا ایم اے فلسفہ کا امتحان ۱۸۹۹ میں پاس کیا گورنمنٹ کالج لاہور سے  دسمبر ۱۹۰۵ ء کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی


                             شادی


Sardar Begum 



علامہ اقبال نے تین شادیاں کیں علامہ اقبال کی پہلی شادی کریم بی بی کے ساتھ 
۱۸۹۵ میں ہوئی ان کے بطن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی دوسری شادی علامہ اقبال نے سردار بیگم سے ۱۹۱۰ میں کی ان کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جاوید اقبال تھا تیسری شادی بیگم مختار سے کی ۱۹۱۴ میں

 

                اقبال اور عشقِ مجازی

علامہ اقبال کی شخصیت کے ڈھکے چھپے نفسیاتی تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایشیا سے یورپ تشریف لے گئے۔ علامہ اقبال جب مشرق کی رومانوی گھٹن کی شکار فضا چھوڑ کر مغرب کی آزاد فضا میں داخل ہوئے تو انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی شخصیت اس قدر مقناطیسیت کی حامل تھی کہ مختلف ثقافتوں کی حسین و جمیل عورتیں ان پر فریفتہ ہونے کے لیے تیار تھیں۔ موہن داس گاندھی تو لندن آ کر بھی گوشت، شراب اور عورت سے مجتنب رہے لیکن اقبال نے مغرب کی نعمتوں سے پوری طرح استفادہ کیا اور نئی دوستیاں بنانے اور نبھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان دوستیوں میں مغرب کی حسیں دوشیزائیں بھی شامل تھیں اور مشرق کی دخترانِ خوش گل بھی اور ان میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں اقبال اور عطیہ فیضی کے رشتے نے قلیل عرصے میں قربتوں کا طویل فاصلہ طے کر لیا اور ان کے راہ و رسم اتنے بڑھے کہ شام کو مل کر کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا اور زندگی کے اسرار و رموز کے بارے میں تبادلہِ خیال کرنا ان کا معمول بن گیا۔ اقبال عطیہ فیضی کے حسن و جمال کے ہی نہیں ان کی ذہانت اور قابلیت سے بھی متاثر تھے۔ وہ عطیہ کی رائے کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسسPh D Thesis  کے بارے میں ان کی قیمتی رائے مانگی تھی۔جب ہم عطیہ فیضی کی ڈائری پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ اس موڑ پر پہنچ چکا تھا جہاں دوستی اور محبت آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ عطیہ لکھتی ہیں کہ ایک دن جب وہ اقبال کے دوستوں اور اساتذہ کے ہمراہ ان کے گھر گئیں تا کہ انہیں پکنک کے لیے لے جا سکیں تو سب نے اقبال کو مراقبے میں مستغرق پایا۔ وہ نجانے کب سے دنیا و مافیہا سے بے خبر عالمِ بے خودی میں کھوئے ہوئے تھے۔ دوستوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اقبال کو ہوش میں نہ لا سکے۔ آخر عطیہ فیضی نے باقی دوستوں کو باہر بھیجا اور اپنی بے تکلفی اور اپنائیت کا سہارا لیتے ہوئے انہیں اتنا زور زور سے جھنجھوڑا کہ وہ ہوش میں آ گئے۔ اس ایک واقعہ سے اقبال اور عطیہ کی خصوصی دوستی اور چاہت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عطیہ کی ڈائری سے اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ اپنے دوست کی بجائے اپنے محبوب کی کہانی سنا رہی ہوں۔1908 میں جب اقبال مغربی تعلیم ختم کر کے ہندوستان لوٹے تو انہیں ایک نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے روایتی ماحول اور ناگفتہ بہ حالات سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ گھر اور ملک سے بھاگ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ ان دنوں انہوں نے عطیہ فیضی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنا حالِ دل رقم کیا ہے۔ اس خط کا ذکر عبدالجید سالک نے اقبال کی سوانح حیات ’ذکرِ اقبال، میں بھی کیا ہے کیونکہ وہ خط کئی حوالوں سے بعد میں اقبال کا مشہور ترین اور بدنام ترین خط ثابت ہوا۔ اس خط میں اقبال نے اپنی زندگی سے بیزاری اور غصے کا اظٖہار کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا کچھ حد تک ذمہ دار اپنی بیوی کو قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے والد نے نوجوانی میں ان کی زبردستی شادی کر دی تھی اور وہ بندھن ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا تھا کیونکہ اقبال اپنی بیوی سے ذہنی مطابقت محسوس نہ کرتے تھے۔ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام دکھوں کو شراب میں گھول کر پی جائیں کیونکہ شراب خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ اقبال اپنے 9 اپریل 1909 کے خط میں رقم طراز ہیں ’ میں بیوی کو نان نفقہ دینے پر آمادہ ہوں لیکن میں اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں جس سے  خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں،


                 اقبال کی شاعری کے ادوار

پہلا دور (شروع سے 1905 تک)

دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)

تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)

چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)

علامہ اقبالؒ نے تقریبا ًسولہ سال کی عمر میں اپنی شاعری کا آغاز کیا اور اسے ساری زندگی جاری رکھا۔ جیسا کہ شیخ عبد القادر نے بانگِ درا (علامہ اقبال کی شاعری کی پہلی کتاب جو 1924 ء میں شائع ہوئی) کے دیباچہ میں لکھا ہے:

ابتدائی مشق کے دنوں کو چھوڑ کر اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے۔

1901ء سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔ اس بزم میں ان کو ان کے چند ہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوں نے کہہ سن کر ایک غزل بھی پڑھوائی۔اس وقت تک لاہور میں لوگ ان سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی۔ سادہ سے الفاظ۔ زمین بھی مشکل نہ تھی۔مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا۔بہت پسند کی گئی۔

علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز غزلوں سے ہوا، ان میں سے کچھ کا تعلق اردو کی کلاسیک شاعری سے جڑتا ہے، جیسے بانگِ درا کی ایک غزل میں وہ کہتے ہیں:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا

خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

علامہ اقبال ؒنے سیاست اور دیگر شعبوں کے بارے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے غزلوں اور نظموں کا استعمال شروع کیا گیا انہوں نے اپنے سیاسی، فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ خیالات کو عام کرنے کے لیے شاعری کا موثر استعمال کیا کیونکہ یہ ان کے پاس ایک ایسا نادر تحفہ تھا جس سے وہ مطلوبہ اثرات پیدا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی تقریباً تمام نظمیں اس کی ترجمان ہیں۔ یہاں ان کی پہلی نظم”ہمالہ“سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔

اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا

مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا


کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا

داغ جس پر غازی رنگِ تکلف کا نہ تھا


ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح شام تو

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو


علامہ اقبال کی ابتدائی نظمیں میرؔ، غالبؔ اور داغؔ کے انداز میں کہی گئیں، کلاسیکی غزلیں ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے کچھ نظمیں بھی لکھیں، جو بانگِ درا کے پہلے حصے کے آغاز میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت اعلیٰ درجے کی ہیں جو نوخیز اذہان کے سمجھنے کی دسترس سے کسی حد تک باہر ہیں؛ جیسے ''پرندے کی فریاد''۔ یہاں تک کہ اس ابتدائی مرحلے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں ان کے فلسفہ خودی کے کچھ عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انسان اور بزم قدرت

دسترس سے کسی حد تک باہر ہیں؛ جیسے ''پرندے کی فریاد''۔ یہاں تک کہ اس ابتدائی مرحلے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں ان کے فلسفہ خودی کے کچھ عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انسان اور بزم قدرت۔


دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)

یہ دور علامہ اقبالؒ کی شاعری کا سب سے مختصر دور ہے جس میں وہ اپنی تعلیم کے حصول میں زیادہ مصروف رہے۔ اسی وجہ سے، اس دور میں شاعرانہ کام بہت کم ہوا۔ ان کی شاعری کا دوسرا دور 1905 ء سے 1908 ء تک محیط ہے، جو انہوں نے یورپ میں گزارا۔ اس عرصے میں اقبالؒ نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا؛لیکن سر آرنلڈ (علامہ اقبال کے استاد جنہوں نے انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا) کے مشورے پر، انہوں نے شاعری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شاعری کے پہلے دور میں ان کی توجہ ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں پر مرکوز تھی لیکن قیامِ یورپ کے دوران، ان کا اولین مقصد پوری دنیا اور اس کے مسائل نیز مسلمانوں اور اسلام کی طرف ہوگیا اور بہت جلد انہیں معلوم ہوگیا کہ دنیا کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل منفرد اور یکساں ہیں اور ان کے حل کے لئے پوری مسلم دنیا کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔


فلسفہ خودی کا تصور اسی دور کی نظموں میں شروع ہوا۔نیز بیخودی کے حوالہ جا ت بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ذیل میں ان کی نظم ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ سے چند اشعار رقم کیے جارہے ہیں جن سے ان کے اس دور کے فکر و فلسفہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:

اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سن چکے

یہ بھی سنو کہ نالہ طائرِ زیرِ بام اور ہے


تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)

علامہ اقبالؒ کی شاعری کا یہ طویل عرصہ ہے جو سولہ سالوں پر محیط ہے اور علامہ اقبال کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ 1908 ء تک، انہوں نے ان تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی تھی جن کی انہیں ضرورت تھی اوران کی سوچ میں پختگی آ گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے سب سے زیادہ نثری اور شعری ادب تخلیق کیا، جو اپنے معیار کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر ہے۔ یہ اردو اور فارسی ادب کے لئے بھی ایک انمول دولت ہے۔ اس دور میں ان کی تین فارسی کتابیں (اسرارِ خودی — 1915، رموزِ بیخودی 1918 اور پیامِ مشرق — 1923) اور اردو میں ایک کتاب (بانگِ درا— 1924) منصہئ شہود پر آئیں۔ پہلی دو کتابوں میں، انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اور فلسفہ بیخودی پیش کیا، جب کہ پیام مشرق میں مشہور یورپی شاعر گوئٹے کے ”سلامِ مغرب“ کا جواب لکھا اور انہوں نے بہت ہی دلکش انداز سے اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا۔”طلوع اسلام“جو کہ بانگِ درا کی آخری طویل نظم ہے، اس میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید اور امید کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس شاہکار نظم سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے


پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے


سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا


اسی دور کے چند اور اشعار دیکھیے:

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے

یقیں افراد کا سرمایہئ تعمیر ملت ہے

یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے


اور وہ مزید کہتے ہیں:

تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا


علامہ اقبالؒ نے مسلم دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں نیز مسلمانوں کوان کا شاندار ماضی یاد دلا کردارِ انحطاط سے نکلنے اور روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کی نوید سنائی کہ جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکیں اور اللہ کا نائب ہونے کا فریضہ ادا کر سکیں جس کے لیے درحقیقت انہیں پیدا کیا گیا۔


چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)

علامہ اقبالؒ نے شاعری کے اس آخری دور میں متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں زبور ِعجم— 1927،افکارِ اسلامی کی تشکیلِ نو — 1930، جاوید نام—1932، بالِ جبریل— 1935، ضربِ کلیم — 1936 اور آخری ارمغانِ حجاز— 1938 (یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی)۔ اس دور میں انہیں ذہنی سکون میسر آیا، جس نے انہیں خودی اور بیخودی کے نظریہ کے ساتھ ساتھ اس کے اجزاء کی وضاحت کرنے کے مواقع فراہم کیے۔


اس دور میں اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ﷺ اور سر زمین حجاز سے ان کی محبت بھی عروج پر پہنچی۔ مغرب کی سیکولر قوم پرستی کی کوتاہیوں اور نقائص کو پوری طرح سے بے نقاب کردیا گیا اور نظریاتی قومیت اور اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ بالِ جبریل جو اس دور کی اردو شاعری کی پہلی کتاب ہے،اس میں پیغامِ خودی پورے جوبن پر ہے۔ ذیل میں ان کی مشہور نظم ”مسجد قرطبہ“ سے چند اشعارِ نمونے کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں جس سے ان کی فکرِ رسا کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی

دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

                        تصانیف

ALLAMA IQBAL POETRY   IN  URDU,IQBAL POERTY IN URDU

علم الاقتصاد ﴾علم الاقتصاد یا مضامین متعلق بہ اقتصاد (انگریزی: The Subject of Economics) علامہ اقبال کی تصنیف ہے جو اقتصاد کے موضوع پر اِرقام کی گئی ہے۔

یہ کتاب علامہ اقبال کی پہلی تصنیف ہے جو علامہ اقبال کے استاد تھامس آرنلڈ نکلسن کی فرمائش پر تحریر کی گئی تھی یہ کتاب ۱۹۰۳ میں شائع ہوئی 

اسرار خودی ﴾ اسرار خودی فارسی کی ایک کتاب ہےیہ کتاب ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔

رموز بیخودی﴾ فارسی کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی دوسری فارسی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1918ء میں شائع ہوئی۔ یہ ان کی فارسی کتاب اسرار خودی کے تسلسل کی دوسری کتاب تھی۔

پیام مشرق ﴾ پیامِ مشرق عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کی ایک تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی۔

زبورِعجم ﴾ فارسی میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو برصغیر کے عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1927ء میں شائع زبورِعجم میں مثنوی گلستان راز جدید اور بندگی نامہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو علامہ اقبال نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو حصوں میں کلاسیکی غزلیں اور دوسرے دو حصوں میں لمبی لمبی نظمیں ہیں

جاوید نامہ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تصنیف ہے اور مثنوی کی شکل میں ہے اور تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1932ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔

بانگ درا ﴾ برصغیر کے عظیم شاعر و فلسفی محمد اقبال کی شاعری پر مشتمل پہلا مجموعہ کلام ہے جو 1924ء میں شائع ہوئی۔ بانگ درا کی شاعری علامہ محمد اقبال نے 20 سال کے عرصے میں اِرقام کی تھی اور اس مجموعے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

بال جبریل ﴾  علامہ اقبال کے کلام کا مجموعہ ہے۔ یہ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو بانگ درا کے بعد 1935ء میں منظر عام پر آئی۔ اس مجموعے میں اقبال کی بہترین طویل نظمیں موجود ہیں۔ جن میں مسجد قرطبہ۔ ذوق و شوق۔ اور ساقی نامہ شامل ہیں۔

ضرب کلیم ﴾ اردو زبان میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1936ء میں ان کی وفات سے صرف دو سال قبل شائع ہوئی۔

ارمغان حجاز ﴾  فارسی زبان میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریۂ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1938ء میں شائع ہوئی۔ ارمغان حجاز کا مطلب ہے حجاز کا تحفہ۔

فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقا  ﴾ برصغیر پاک و ہند کے عظیم مفکر علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی میں فلسفہ کے موضوع کا مقالہ تھا جو انہوں نے جامعہ میونخ میں 1908ء میں جمع کروایا اور اسی سال شائع ہوا

تجدیدِ فکریاتِ اسلام ﴾ یا "تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ" علامہ اقبال کی ایک انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے اردو ترجمے کا نام ہے جو ان کے سات خطبات کا مجموعہ ہے۔ پہلے چھ خطبات انہوں نے دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء کے درمیان مسلم ایسوسی ایشن، مدراس کی دعوت پر مدراس، حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں پڑھے تھے۔ یہ خطبات سب سے پہلے 1930ء میں شائع ہوئے 

  

            اقبال کے کلام کی خصوصیات 

رفعت تخیل

       تخیل میں رفعت اور بلند آہنگی میں اقبال اردو کے تمام شاعروں سے سبقت لے گئے ہیں ان کی فلک بوس فکر کی روشنی میں قاری خیال کے نئے نئے افق دیکھتا ہے مثلاً

            برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی

       ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

کاسیکیت اور رومانیت

اقبال کی شاعری میں ہمیں فکر کی گہرائی اور جذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ کاسیکیت کا ایک منفرد انداز بھی ملتا ہے

          عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام

        اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں

منظر نگاری

اقبال مناظر فطرت کی لفظی تصویریں بڑی خوبی سے کھینچتے ہیں

          صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں

            ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو

تشبیہ و استعارہ

اقبال تشبیہوں اور استعاروں کو بڑی فنکارنہ مہارت کے ساتھ شعروں میں استمعال کرتے ہیں

        جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں 

      یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں 

فلسفہ خودی

علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خودی کی تعلیم دی ہے

           مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے

         خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!

فلسفہ عشقِ

اقبال کی شاعری میں فلسفہ عشقِ کا رنگ بھی نظر آتا ہے

           بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

             عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

فرنگی مخالفت 

علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جابجا انگریز کی مخالفت کی ہے اور ہمشیہ اپنی قوم کو یہ سبق دیا کہ ہم مسلمانوں کا اپنا طریق حیات ہے ہمیں اپنے رسول ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرنی چاہیے انگریز کی اس ظاہری چمک دمک سے متاثر نہ ہونا 

         خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

       سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

حقیقت پسندی 

اقبال فطرت انسانی اور نفسیات کے گہرے رمز سے آشنا تھے وہ زندگی اور اس کے مصائب و وسائل کو حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھتے تھے

         اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن

   جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

تہذیب اسلاف 

علامہ اقبال نے ہمیشہ اسلاف کی تہذیب کی پیروی کی تعلیم دی غیروں کی نئی تہذیب کے نقصانات کو واضح کیا

               اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں

               نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

نوجوانوں سے خطاب 

علامہ اقبال ایک انقلابی شاعر ہیں اور انقلاب کے لیے سب سے اہم طبقہ نوجوان نسل ہی ہوا کرتی ہے اس لئے علامہ اقبال نے اپنے کلام میں کئئ جگہ نوجوانوں کو مخاطب کیا

            محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے

             ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند              

Badshahi Masjid ,Lahore
         

     وفات

علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق ۲۰، صفر المصفر ۱۳۵۷ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔  

                         حرفِ آخر

اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لئے ان کے فلسفہ میں  کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کر سکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر میں گرفتار رہی ہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میرؔ کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالبؔ کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے اور اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے

  اقبال کے بارے میں مزید جاننے کیلیئے

یہاں پر کلک کریں

100 Books Written on IQBAL

مزید جانیے

Mcqs and objective about 

iqbal


Post a Comment

0 Comments