Saadat Hasan Manto||Manto |
سعادت حسن منٹو
سعادت حسن منٹو سے میرا تعارف ۲۰۱۷ میں ہوا تعار ف کچھ یوں ہوا کہ میں جب بی ایس اردو کے دوسرے سمسٹر میں سعادت حسن منٹو کے ایک افسانہ کو پڑھاجس کا نام تھا نیا قانون لیکن اس وقت بھی میرا منٹو سے تعارف مختصر ہی تھا یعنی ایک افسانہ کی حد تک ۲۸ مارچ ۲۰۱۹ کا دن تھا میں نے اپنے کالج کی لائبریری میں ان کی ایک کتاب دیکھی جسکانام ٹھنڈا گوشت تھا یہ کتاب مجھے بڑی ہی عجیب و غریب لگی کیونکہ نام ہی خطر ناک ہے میں نے جب پڑھا اس کتاب کو تو پتہ چلا کہ سعادت حسن منٹو ایک حقیقت نگار ادیب جو معاشرے کو اس کا اصل چہرے کے حوالے سے دیکھتا ھے دوستوں میں آپ کو منٹو کا تعارف چند لائنوں میں کرواتا ہوں
منٹوکاحلیہ
”جیسا سر سفید ھے تو ، آنکھیں میگا پکسل ، دماغ نیوٹن
صحت خوب و خیال ، قد آور، ہاتھ قلم ،
صورت چاند جیسی ، غصہ لبریز، دل پیمانہ
پیدائش
سعادت حسن منٹو ۱۱ مئی ۱۹۱۲ء کو لدھیانہ کے قصبہ سمبرالہ کے معزز کشمیری گھرانے میں پیدا ہوے۔ دوست انہیں ٹامی کے نام سے ھمیشہ بلاتے تھے ان کے والد کا نام مولوی غلام حسین تھا اور وہ پیشہ سے جج تھے۔ منٹو ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے منٹو کے والد کے مزاج میں سخت گیری تھی اس لئے منٹو کو شفیق باپ کا پیار کبھی نہیں ملا
بچپن
منٹو کےدوست اور سوانح نگار ابو سعید قریشی کے مطابق سعادت حسن بچپن ہی سے کھلنڈرے اور شرارتی قسم کے لڑکے تھے، جو اپنے دوستوں کو چونکانے کے لیے غیر معمولی شرارتیں کیا کرتے تھے۔ سعادت حسن کے دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے۔ سعادت حسن منٹو اپنے گھر میں ایک سہما ہوا بچہ سمجھے جاتے تھے ایک اور جگہ ابو سعید قریشی لکھتے
” گھر یلو حالات نے منٹو کو ایک
نفسیاتی مریض بنا دیا “
تعلیم
میٹرک کے امتحان میں منٹو تین مرتبہ ناکام ہوئے تینوں مرتبہ باقی مضمون کے ساتھ ساتھ ھمیشہ اردو کے مضمون میں بھی ناکام ہی رھے پھر آخر کار انھوں نے چوتھی کوشش میں آرٹس کے مضامین کے ساتھ مُسلم ہائی سکول شریف پورہ امر تسر سے ۱۹۳۱ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن اس مرتبہ بھی اُردو کے مضمون میں کامیابی مقدر نہ بنی۔ ۱۹۳۱ ء میں ہندو مہاسبھا کالج میں داخلہ لیا لیکن وہاں بھی اردو کے مضمون میں ہی ناکامی مقدر بنی پھر وہاں سے چھوڑ کر ۱۹۳۳ ء میں ایم اے او کالج میں داخل ہوگئے۔ ایم اے او کالج سے ۱۹۳۴ء میں منٹو پنجاب یونیورسٹی کے ایف اے کے امتحان میں شامل ہُوئے لیکن وھاں بھی ناکام رہے ۱۹۳۴ ء میں علی گڑھ مُسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن تپ دق کی بیماری کے باعث نام علی گڑھ یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا۔ منٹو کو بچپن سے پڑھنے کا شوق تو ضرور تھا مگر منٹو اکتسابِ علم اپنی رائے سے کرنا چاہتا تھے۔
منٹو
سعادت حسن نے اپنے نام کے ساتھ لفظ ’منٹو‘ کا اضافہ کیا اِس بارے میں ابو سعید قریشی نے منٹو لفظ کے بارے میں رقمطراز ھیں کہ:
” سعادت کہا کرتا کہ ’منٹ‘ کشمیری زبان میں ترازو کو کہتے ہیں کشمیر میں ہمارے اَب و جد کے ہاں دولت ترازو میں تُلتی تھی اس رعایت سے ہم ’منٹو‘ کہلائے “
پہلاافسانہ
منٹو کا پہلا طبع زاد افسانہ امرتسر کے ہفت روزہ ’ خلق ‘ میں اگست ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا تھا، عنوان تھا’ تماشہ ‘۔ افسانے کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے
عشقِ اور منٹو
کشمیر کی معروف علمی و ادبی شخصیت ایاز رسول نازکی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’منٹو اور کشمیر‘ میں لکھا ہے: ” بٹوت کی تازہ اور خوشگوار ہواؤں کی بدولت تپ دق کے عارضے سے چھٹکارا ملا تو ملا مگر بدلے میں دل کا روگ بھی لگا بیٹھے۔ ایک مقامی دوشیزہ کے ساتھ ہونے والا یہ عشق منٹو کا اولین عشق تھا اور اس کی کسک تمام عمر اُن کے دل میں بستی رہی “
بٹوت میں اپنے تین ماہ کے قیام کے بارے میں منٹو اپنے افسانے ’پانچ دن‘ میں رقم طراز ہیں: ’جموں توی کے راستے کشمیر جائیے تو کُد کے آگے ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں بٹوت آتا ہے۔ بڑی پُرفضا جگہ ہے۔ یہاں دق کے مریضوں کے لیے ایک چھوٹا سا سینی ٹوریم ہے۔ یوں تو آج سے آٹھ نو برس پہلے بٹوت میں پورے تین مہینے گزار چکا ہوں، اور اس صحت افزا مقام سے میری جوانی کا ایک ناپختہ رومان بھی وابستہ ہے مگر اس کہانی سے میری کسی بھی کمزوری کا تعلق نہیں
Manto Family |
شادی
منٹو کی شادی صفیہ بیگم سے ہوئی ان کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے نصرت، نگہت،نزہت منٹو اپنی شادی کے بارے میں بتاتے ہیں
” ۱۹۳۸ میں میرا صفیہ سے نکاح ہو گیا۔ رخصتی اس لیے نہ ہو سکی اسے کھلاتا کہاں سے، سامنے والے ایرانی کے ہوٹل سے اور وہ بھی ادھار۔ رکھتا کہاں؟ کھولی میں تو ایک سے زائد کرسی کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔ظاہر ہے کہ بیویاں نہاتی بھی ہیں، مگر وہاں تو کوئی غسل خانہ ہی نہیں تھا۔ دو منزلہ بلڈنگ تھی جس میں ۴۰ کھولیاں تھیں۔ ان سب کے ساکنوں کے لیے صرف دو غسل خانے تھے، جن کے دروازے معلوم نہیں کب کے غائب ہوچکے تھے۔ مجھے اس احساس سے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ میرا نکاح ہوگیا ہے اور ایک لڑکی کے ساتھ آج نہیں تو کل مجھے شوہر کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہو گی “
Saadat hasan manto,Safiyah manto,Nuzhat Arshad,Nighat Patel |
نکاح کے بعد منٹو نے احمد ندیم قاسمی کو خط میں لکھا:
میری شادی ؟ ……میری شادی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ میں صرف ’نکاح‘ گیا ہوں۔ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا باپ مر چکا ہے، میرا بھی باپ زندہ نہیں، وہ چشمہ لگاتی ہے، میں بھی چشمہ لگاتا ہوں، وہ ۱۱ مئی کو پیدا ہوئی ہے، میں بھی ۱۱ مئی کو پیدا ہوا تھا، اس کی ماں چشمہ لگاتی ہے، میری والدہ بھی چشمہ لگاتی ہے، اس کے نام کا پہلا حرف ہے ایس میرے نام کا پہلا حرف بھی ایس ہے ہم میں اتنی چیزیں مشترک ہیں۔
بقایا حالات کے متعلق میں خود کچھ نہیں جانتا۔ پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جب سے اس پر میرا حق ہوا ہے اس نے پردہ کرنا شروع کردیا ہے صرف مجھ سے “
سعادت حسن منٹو صفیہ کے صبر کے بارے بتاتے ہوئے کہتے ہیں
” مگر یہ بھی تو سوچو کہ صفیہ نا ہوتی تو منٹو کیسے ہوتا کیا صابر عورت تھی کہان طعنوں اور نشے سے چور پچیس روپے کا ایک کہانی فروش کہاں صفیہ یہ دس روپے آپ کی بوتل کے پانچ روپے آپ کے آنے جانے کے اور یہ دس اس میں گھر کا خرچا چل جائے گا آپ بلکل پریشان نا ہوں میں کہتے نہیں “
ادبی ذوق
منٹو کو ادب سے بہت گہرا لگاؤ تھا انہوں نے بے شمار افسانوں مجموعے لکھے جن کے نام درج ذیل ہیں دھواں
منٹو کے افسانے، نمرود کی خدائی ،برقعے ،پھندے ،شکاری عورتیں ،سرکنڈوں کے پیچھے، گنجے فرشتے ،بادشاہت کا خاتمہ ، شیطان،اوپر نیچے درمیان میں نیلی رگیں، کالی شلوار (thand gosht)، بغیر اجازت رتی ماشہ تولہ، یزید، ٹھنڈا گوشت بڈھا کھوسٹ،آتش پارے ،خالی بوتلیں خالی ڈبے ،سیاہ حاشیے ، گلاب کا پھول ، چغد ،لذت سنگ ،تلخ ترش، شیریں
جنازے،بغیر اجازت وغیرہ ہیں
منٹو اور فحش
ان کے افسانوں کو صرف فحاشی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے مگر وہ درحقیقت انسان کے سماجی، نفسیاتی اور جنسیاتی مسائل کے بارے میں ہمیں بتانا چاہتے ہیں جو انسان کی پیدائش سے لے کر مرنے تک اس کے ساتھ لپٹے رہتے ہیں۔ یہ سب مسائل توجہ طلب ہونے کے ساتھ ساتھ حل طلب بھی ہیں، مگر ہمارا رویہ ان تمام مسائل کے حوالے سے منفی رہا ہے۔ان کی کہانیوں میں بظاہر فحش الفاظ کے پیچھے موجود دل سوز پیغام کو سمجھے بغیر ہم نے ان پر بے ہودہ، فحش نگار اور سنکی ہونے کا الزام اس قدر شدت سے لگایا ہے کہ ان کی وفات کی ۶ دہائیوں بعد بھی منٹو کی کتاب ہاتھ میں دیکھنے پر لوگ ٹیڑھی اور مشکوک نظروں سے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ ہاتھ میں اردو ادب کے مایہ ناز افسانوں و مضامین کے بجائے پلے بوائے میگزین اٹھایا ہوا ہو۔آج اگر منٹو زندہ ہوتے تب بھی وہ اسی سچ کو لکھنے کے لیے اپنے قلم کی سیاہی خرچ کرتے جسے ہمارے معاشرے کے نام نہاد پارسا برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سعادت حسن منٹو اپنے افسانوں میں عورتوں کے کپڑے اتارتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے ان ہی عورتوں کے بارے میں لکھا ہے جن کے کپڑے حالات اور ہمارے معاشرے نے اتارے ہیں۔ 'ہتک' کی سوگندھی ہو، 'کھول دو' کی سکینہ، 'کالی شلوار' کی سلطانہ، یا پھر 'ٹھنڈا گوشت۔ افسانے کی کلونت کور ہو، یہ منٹو کے وہ کردار ہیں جو حالات کے مارے ہوئے ہیں
منٹو اور عدالت
منٹو کے چھے افسانوں (khool do,kali shilwar,dhowan,Boo,oper neechey aur darmiyan)، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، کھول دو، اور ”اوپر نیچےاوردرمیاں پر فحاشی الزام کے تحت فوجداری مقدمے چلائے گئے۔ ان میں سے ابتدائی تین کہانیوں پر مقدمات برطانوی دور حکومت میں قائم ہوئے اور بقیہ تین تحریروں پر مملکت پاکستان میں درج ہوئے۔ آج پاکستان میں منٹو کی شائع ہونے والی کتابوں میں یہ افسانے شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان کے فحش ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ وقت نے کیا ہے ”
منٹو اور پاگل خانہ
سعادت حسن منٹو کو ۳ دفعہ پاگل جانہ جمع کروایا گیا
پہل دفعہ جب منٹو کچھ روز پاگل خانے میں رہ کر آئے تو یار دوست مزاج پرسی کے لیے ان کے ہاں آئے، منٹو نے بہت حسرت سے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
"بھائیو! چھوٹے پاگل خانے سے نکل کر بڑے پاگل خانے میں آ گیا ہوں “
آخری وقت
جب ان کے افسانے ” ٹھنڈا گوشت" پر فحاشی کا الزام لگا اور منٹو کو ۳ ماہ کی قید اور ۳۰۰ جرمانہ کی سزا ہوئی۔اس پر کتّا بھی نہیں بھونکا۔سزا کے خلاف پاکستان کے ادبی حلقوں سے کوئی احتجاج نہیں ہوا الٹے کچھ لوگ خوش ہوے کہ اب دماغ ٹھیک ہو جاے گا۔اس سے پہلے بھی ان پر اسی الزام میں کئی مقدمے چل چکے تھے لیکن منٹو سب میں بچ جاتے تھے۔ سزا کے بعد منٹو کا دماغ ٹھیک تو نہیں ہوا ، سچ مچ خراب ہو گیا ۔یار لوگ انھیں پاگل خانے چھوڑ آے۔اس بیکسی ،ذلت و خواری کے بعد منٹو نے ایک طرح سے زندگی سے ہار مان لی شراب نوشی حد سے زیادہ بڑھ گئی۔آمدنی کا کوئی ذریعہ کہانیاں بیچنے کے سوا نہیں تھا۔اخبار والے ۲۰ روپے دے کر اور سامنے بٹھا کر کہانیاں لکھواتے۔خبریں ملتیں کہ ہر شناسا اور غیر شناسا سے شراب کے لئے پیسے مانگتے ہیں۔ بچی کو ٹائفائڈ ہو گیا بخار میں تپ رہی تھی۔ گھر میں دوا کے لئے پیسے نہیں تھے بیوی پڑوسی سے ادھار مانگ کر پیسے لائیں اور ان کو دئے کہ دوا لے ائیں وہ دوا کی بجاے اپنی بوتل لے کر آگئے۔ صحت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی لیکن شراب چھوڑنا تو دور، کم بھی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ شائد مر ہی جانا چاہتے تھے۔۱۸ جنوری ۱۹۵۵ کو لاہور میں ان کا انتقال ہوگیا ان کے آخری الفاظ کچھ یہ تھے
” یہان سعادت حسن منٹو دفن ہے۔ اس کے سینہ میں افسانہ نگاری کے سارے اسرار و رموز دفن ہیں وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا “
حرفِ آخر
دوستوں میں اتنا کہو گا صرف جب تک دنیا میں اردو زبان لکھی، پڑھی اور بولی جاتی رہے گی۔ تب تک سعادت حسن منٹو کا نام زندہ رہے گا
منٹو اپنے خاکے میں لکھتا ہے ۔
'” ہم اکٹھے پیدا ہوئے تھے اور شاید مریں بھی اکٹھے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے۔ یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کیونکہ میں نے خلوص دل سے کوشش کی ہے کہ ہماری دوستی قائم رہے “
0 Comments