لیکچرار انٹرویو 2022|| lecturar Interview 2022 ||50+ Top Interview Questions and Answers in 2022

 50+ Top Interview Questions and Answers in 2022


Lecturar interview

اردو لیکچرار انٹرویو

2022 کمیشن لیکچرر انٹرویو

- ۳۰ اگست کو کمیشن میں لیے گئے میرے انٹرویو کے سوالات مع جوابات پیش خدمت ہیں انٹرویو شئیر کرنے کا مقصد ان تمام افراد کی مدد کرنا ہے جنہوں نے ابھی یہ مرحلہ سر کرنا ہے، اور ان تمام افواہوں کا جو انٹرویو کے حوالے سے ہم تک پہنچی ہیں ) رد کرنا ہے ( ایک اور پوسٹ اس حوالے سے دوں گی ان شاء اللہ )۔ 

نوٹ: اللہ کے فضل و کرم سے میرا انٹرویوinterview  بہت اچھا ہوا ،پھربھی آپ سب دوستوں سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ ہمیں بہترین نمبروں سے پاس کر کے حلال رزق کمانے کے قابل کر دے 

- آفس میں داخل ہو کر بیٹھتے ساتھ چیئرمین نے پوچھا: 

کیسی ہیں آپ؟ 

الحمداللہ ٹھیک ہوں سر ۔۔۔


سوال نمبر ۱ : کیسی ہیں آپ ؟ اور " کیسی ہو "میں فرق؟ 


جواب: “کیسی ہیں آپ” ہم احترامًا کہتے ہیں جب ہم اپنے بزرگوں یا اساتذہ سے مخاطب ہوں ، اور “ کیسی ہو؟” ہم بے تکلفی والے انداز میں کہتے ہیں جب مخاطب ہمارا دوست یا کوئی بھی ہم عمر ہو۔ 


سوال نمبر ۲: اچھا اچھا۔۔ وہ کیسی ہیں ؟ اسے کیا کہتے ہیں قواعد کی رو سے؟ 


جواب : قواعد کی رو سے یہ استفہامیہ یا سوالیہ جملہ کہلائے گا کیونکہ اس میں سوال پایا جاتا ہے۔ 


سوال نمبر ۳: ٹھیک ہے اپنا تعارف دیں ۔۔۔ 

جواب : مختصر تعارف ۔۔۔۔ 

_  اچھا آپ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا ہے ۔۔ سر سہیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔۔ سر آپ ان سے سوال کریں۔ 

- پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد 


سوال نمبر ۴: ادب میں کیا پسند ہے آپ کو؟ شاعری یا نثر ؟ 


جواب : سر! مجھے شاعری اور بالخصوص غزل بہت پسند ہے۔ 


سوال نمبر ۵: غزل سے کیا مراد ہے؟ 


جواب: غزل کے لغوی معنی “ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہے” اس کے علاوہ لفظ غزل کی ایک اور تعریف بھی ہے کہ جب شکاری کتے ہرن کا شکار کرتے ہیں تو اس وقت اس کے منہ سے نکلنے والی درد بھری چیخ کو بھی “ غزل” کہا جاتا ہے۔ اس صنفِ سخن کو اردو شاعری کی آبرو کہا جاتا ہے۔


سوال نمبر ۶: مطلع کیا ہوتا ہے؟ 


جواب: سر! مطلع غزل کے پہلے شعر کو کہتے ہیں جس میں شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں۔ اور لغوی معنی کے لحاظ سے مطلع سے مراد “طلوع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ 


سوال نمبر ۷: اچھا! پھر حسنِ مطلع سے کیا مراد ہے؟


جواب: سر! اکثر شعرا حضرات ایک سے زائد مطلعوں کا استعمال کرتے ہیں اپنی غزلوں میں۔ اس لحاظ سے مطلع کے بعد آنے والا دوسرا شعر جس میں مطلعے کی طرح قافیہ و ردیف دونوں مصرعوں میں موجود ہو ’’حسنِ مطلع‘‘کہلاتا ہے۔ 


سوال نمبر۸: غزل کو نیم وحشی صنفِ سخن کیوں کہا گیا؟ 


جواب: سر کلیم الدین احمد نے غزل کو “نیم وحشی” صنفِ سخن کہا کیونکہ غزل کے موضوعات میں ربط نہیں ہوتا۔ ہر شعر کا موضوع الگ ہوتا ہے۔ غزل کے برعکس نظم میں ربط پایا جاتا ہے کیونکہ وہاں ایک ہی موضوع پر مسلسل بات کی جاتی ہے۔ 


سوال نمبر ۹: نیم وحشی کیوں ؟

 پورا وحشی کیوں نہیں کہا ؟ 


جواب: سر! وحشی ایک دیوانہ ہوتا ہے جس کے خیالات منتشر اور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں بالکل اسی طرح غزل کے موضوعات میں بھی ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال نہیں پایا جاتا۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پوری صنف ہی بے ربط ہے  بلکہ صرف فکری حوالے سے تنقید کی گئی ہے۔ فنی حوالے سے غزل ایک مکمل صنف ہے۔ 


سوال نمبر ۱۰: پسندیدہ شاعر؟


جواب : احمد فراز 


سوال نمبر ۱۱: فراز کی شاعری کے بنیادی موضوعات؟


جواب: سر! فراز کے ہاں وطن پرستی، ظلم کے خلاف احتجاج، حسن و جمال،  عشق و محبت کی واردات کے ساتھ ساتھ انقلابی خیالات اور بغاوت کے موضوعات پائے جاتے ہیں ۔


سوال نمبر ۱۲: فراز کے ہاں کون سے دو  غالب رویے پائے جاتے ہیں؟ 


جواب: سر! فراز کے ہاں غمِ دوراں اور غمِ جاناں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ 


سوال نمبر ۱۳: فراز کی انقلابی شاعری کی کیا وجوہات تھیں؟ 


جواب: انہوں نے سماج کی قیود سے بغاوت کی، آمریت کے خلاف عملی جدوجہد کی۔ انہوں نے ضیاءالحق کے مارشل لا کے دور کے خلاف نظمیں لکھیں جس کی بنا پر ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 


سوال نمبر۱۴؛ فراز کو جلا وطن کیا گیا یا خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی؟ 


جواب: جلا وطن کیا گیا ( یہ جواب غلط ہو گیا شاید۔ احباب سے اصلاح کی درخواست ہے) 


*صحیح جواب: 


ضیاءالحق کے دور میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی، لندن کی سڑکوں پر، وطن کے گلی کوچے یاد کرتے رہے۔ 


سوال نمبر ۱۵: انقلاب کی شاعری کے حوالے سے کوئی نظم یا غزل سنانا چاہیں گی آپ؟ 


جواب: سر! ان کی غزل کے کچھ اشعار 


ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا 

غم دوراں سے جدا ہے ۔۔۔۔۔ غم جاناں  جاناں  


اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں  

سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں  


جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے  

شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں  


اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے  

اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں 


سوال نمبر ۱۶: پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں جاناں جاناں دو دفعہ کیوں آیا؟ 


جواب: سر! “جاناں” ردیف ہے اس غزل کی۔ اس لیے ہر شعر کے آخر میں آیا ہے۔ جبکہ غمِ جاناں غمِ دوراں کی مناسبت سے لکھا گیا ہے

 کہ ہماری سادگی دیکھیے فراز ہم نے اس جہاں کے دکھوں کو محبوب کے غم سے الگ سمجھا۔ 

( تکنیکی لحاظ سے جائزہ لیں تو  جاناں دوسرے قوافی مثلا گریباں، زنداں، عنواں کی طرح غزل کا قافیہ بھی ہے اور حسن اتفاق کہیں یا فراز کی شعوری کوشش کا نتیجہ ۔۔کہ جاناں ہی غزل کی ردیف بھی ہے تو یہ قافیہ و ردیف کا دلکش امتزاج بھی ہوگیا اور تکرار لفظی کی خوبصورت مثال بھی)


سوال نمبر ۱۷: انقلاب کے حوالے سے کسی نظم کا نام؟ 


جواب : محاصرہ


سوال نمبر ۱۹: فراز کے علاوہ کسی اور شاعر کو پڑھا ہے یا کوئی اور پسندیدہ شاعر ہے؟ 


جواب: جی سر! پڑھا تو ہر شاعر کو ہے۔ پسندیدہ شعرا میں غالب اور اقبال  بھی شامل ہیں۔ 


سوال نمبر ۲۰: غالب کی جدت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ 


جواب: سر! غالب ایک جدت پسند شاعر تھےانھوں نے جیسے شاعری میں موضوعات اور اندازِبیان میں جدت، نکتہ آفرینی ، شوخی، ظرافت ، استعارے،مرصع و مرقع الفاظ کا استعمال خوبصورتی سے کیا اسی طرح خطوط میں بھی  محاورے اور خوبصورت جامع الفاظ استعمال کر کے خطوط نویسی کو جدت عطا کی۔غالب کے دور میں خطوط نویسی نہایت فصیح بلیغ القابات سے مرقع ہوا کرتی تھی مگر غالب نے اسے سادگی، بے ساختہ پن اور بے تکلفی سے آشنا کرایا اور یہی انکی جدت طرازی اور نکتہ آفرینی کی اعلیٰ مثال ہے۔

 



(کمیشن لیکچرر انٹرویو بقیہ حصہ)


سوال نمبر ۲۱: کوئی شعر سنائیں جدت کے حوالے سے؟ 

جواب : 

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا 

کاغذی ہے پیرہن ۔۔۔۔ ہر پیکر تصویر  کا  ۔۔۔ 


سوال نمبر ۲۲: شعر کی تشریح کریں

 

جواب : سر! یہ مرزا غالب کا ایک کثیر الجہت شعر ہے۔ اس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر پیکرِ تصویر سے مراد تمام موجودات سے ہے اور یہ ساری چیزیں فنا ہونے والی ہیں ۔ اب جب یہ موجودات کا عالم ہے  تو نقش ہستی کا اپنا کاغذی لباس یعنی بے ثباتی پر فریادی ہونا فطری ہے۔ پس غالب کہتے ہیں کہ یہ کس بیداد تحریر کے نقش ہیں جو فریاد لیے ہوئے ہیں اور جن کے لباس کاغذی ہیں۔ 


(یہاں کاغذی لباس کے حوالے سے ایران کی جو روایت مشہور تھی وہ بھی سنائی۔ اور یہ شعر مزید بھی ڈسکس کیا گیا تھا۔) 


سوال نمبر ۲۳: غالب اور اقبال دونوں اپنے وقت کے بڑے شاعر تھے۔آپ کیا کہنا چاہتی ہیں اس حوالے سے؟


جواب: دونوں شعرا اپنے اپنے وقت کے عظیم اور معتبر شاعر ہیں۔ جہاں تک موازنے کا تعلق ہے تو غالب انیسویں صدی اور اقبال بیسویں صدی کا بڑا شاعر ، غالب کا میدان غزل اور اقبال نظم گو شاعر۔ 

بلاشبہ غالب ایسا شاعر ہے جس نے اردو غزل میں تصورات، فلسفہ، فکر نو، تخیل، جدت ہر لحاظ سے تخلیقی جوہر دکھائے اور ان سب پر مستزاد اسلوب کی جمالیات جس کا منفرد استعاروں، نادر تشبیہات ، پُرمعنی تمثالوں اور خوب صورت صوتی آہنگ کی حامل تراکیب سے رنگ چوکھا ہوتا ہے۔ غالب اردو غزل کا کلاسیک ہے، اسی لیے غالب کے بعد، اس کا اندازِ سخن اسی پر ختم ہو گیا۔ 


جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے تو اقبال ایک فلسفی شاعر ہیں

 جو اپنے مفکرانہ کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک ہیں اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے آپ کی شاعری کو با مقصد اور پیغامِ آفریں بنایا ہے۔ مختصراً غالب فن کے اعتبار سے اور اقبال فکر اور فلسفے کے اعتبار سے بڑے شاعر ہیں۔ 


چئیرمین مخاطب ہو کر ، ادب کے حوالے سے کچھ لکھا ہے؟ 


- جی سر! اپنی کچھ تخلیقات اور ایم فل کا مقالہ پیشِ خدمت ہے۔ 


سوال نمبر ۲۴: چئیرمین ، آپ وائٹ بورڈ کی طرف جائیں ، آج آپ ہمیں پڑھائیں گی۔


جواب: سر! میں اپنی پسند کا شعر لکھ لوں؟ اور اجازت ملنے پر میں نے فراز کا یہ شعر لکھا: 


رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ 

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ


سوال نمبر ۲۵: چئیرمین، کیا آپ نے شعر ٹھیک لکھا؟ 


جواب: میں نے شعر پھر سے دیکھا ، پڑھا اور دوسرے مصرعے میں “کے” کو تبدیل کر کے “کہ” لکھ دیا۔ یعنی 

“آ پھر سے مجھے چھوڑ کہ جانے کے لیے آ”


سوال نمبر ۲۶: چئیرمین، قواعد کی رو سے “کہ” کو کیا کہتے ہیں ؟


جواب: سر! حرف تاکید ۔۔۔ 


- اور اس کے ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ میں شعر پہلے درست لکھا تھا اور مصرعہ پھر سے ٹھیک کر لیا۔ 


سوال نمبر ۲۷: “جانے کے لیے آ” میں کونسا زمانہ پایا جاتا ہے؟ نیز حرف آ سے کیا مراد ہے؟ یعنی قواعد یا صنعت کے حوالے سے ہم اسے کیا کہیں گے؟ 


جواب: سر! “جانے کے لیے آ” زمانے کے لحاظ سے مستقبل کی بات ہو رہی ہے۔ اور شعر میں لفظ “آ” سے مراد صنعتِ تکرار متتابع ہے۔ تکرار متتابع سے مراد شعر کے پہلے مصرعے میں ایک لفظ لایا جائے اور دوسرے مصرعے میں اس کی تکرار اس طرح سے کی جائے گویا بات سے بات پیدا کی گئی ہو۔ 


سوال نمبر ۲۹: چئیرمین، شاعر کیوں کہہ رہا ہے کہ میرے دل کو دکھانے آ جاؤ ، پر آجاؤ ؟ جب محبوب نے ایک بار پھر چھوڑ ہی دینا ہے ؟ کیا شاعر کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں؟ 


جواب: سر! اس غزل کے باقی اشعار سے شاعر کا مدعا کھل کر سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔ (پوری غزل سنا دی)


شاعر محبوب سے التجا کر رہا ہے کہ 


کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم 

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ 


کچھ تو میرے پندار محبت کا بھرم رکھ لو۔ دوست احباب مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور ہمارے تعلق کے حوالے سے بات ہوتی ہے سو اے محبوب تو اگر مجھ سے ناراض بھی ہے تو خدارا لوگوں کو دکھانے کی غرض سے ہی آ جاؤ۔ پھر بے شک مجھے چھوڑ کے چلے جانا۔ 


-  چئیرمین، ٹھیک ہے آپ آ کر بیٹھ جائیں ۔۔۔۔ میڈم سے مخاطب ہو کر ۔۔۔ میم آپ سوالات پوچھیں ۔۔۔۔


سوال نمبر ۳۰: میم، ناول پڑھتی ہیں آپ؟ جنت کی تلاش یا امراؤ جان پڑھی ہے آپ نے؟ پھر ساتھ ہی خود امراؤ جان و ادا کے حوالے سے سوال کیا کہ اس ناول میں کیا ہے؟ 


جواب: میم! اس ناول کی کہانی فیض آباد سے اغوا شدہ لڑکی امیرن کی ہے، جسے امراؤ جان ادا کے نام سے لکھنؤ میں ایک طوائف بن کر زندگی بسر کرنی پڑی۔ ناول میں انیسویں صدی کے لکھنؤ کا معاشرہ پیش کیا گیا ہے۔


سوال نمبر ۳۱: یہ ناول کس نے لکھا ہے؟ 

جواب : مرزا ہادی رسوا 


سوال نمبر ۳۲: مرزا ہادی نے ایک طوائف کا سہارا کیوں لیا ناول لکھنے کے لیے؟ یا رسوا نے طوائف کے کوٹھے کا ہی کیوں انتخاب کیا ؟


جواب: میم، اس وقت طوائف کا کوٹھا ہی لکھنؤ میں تہذیبی اور ادبی مرکز تھا اور اس سے نواب ،رؤسا اور شرفا سے لے کر مولوی ،ڈاکو ،شاعر و شاعرات تک سبھی وابستہ تھے۔ 


سوال نمبر ۳۳: لکھنوی تہذیب اس وقت کیسی تھی؟ 


جواب : اس معرکۃ الآرا ناول میں رسوا نے لکھنؤ کی معاشرتی اور تہذیبی منظر کشی بہت ہی خوبصورتی سے کی ہے ،لکھنؤ کی عیش و عشرت کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی حالت طوائف کے بغیر ماہئ بے آب کی سی ہے ،طوائف کے بالاخانوں پر جانا ان کے نزدیک تہذیب اور عزت کی چیز ہے ،ہر طبقہ کے لوگ طوائف کے پاس جانے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ،نواب اور جاگیر داروں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ،اخلاقی پستی اور معاشرتی بیماری کا حد درجہ شکار تھے انہوں نے لکھنؤ کے رہن سہن اور بیگمات کا نقشہ بہت خوبصورتی سے کھینچا ہے ،حقہ بھی ہے ،گانے بجانے کی محفلیں بھی سج رہی ہیں اور بہت ہی خوبصورت پاندان بھی ہے ،غرض عیش و عشرت ہی ان کے نزدیک اصل زندگی ہے ،یہ حقیقت ہے کہ لکھنؤ کی معاشرتی زوال میں طوائفوں کا اہم کردار ہے ،مگر اخلاق سوز لوگوں کا بھی کوئی کم کردار نہیں ہے ،رسوا نے اس ناول میں لکھنؤ کے محلوں ،میلوں ،گلیوں ،بازاروں اور مکانات کے محل وقوع کا نقشہ ایسا کھینچا ہے کہ اسے پڑھتے ہی لکھنؤ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔


سوال نمبر ۳۴: اس تہذیب کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ لکھنو کے نوابین کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟ 


جواب: لکھنو کے نوابین اس وقت برائے نام حکومت کر رہے تھے۔ اصل کرتا درتا انگریز حکمران تھے۔اس دور کے مرد نے سیاسی اعتبار سے نامردی کا ثبوت دیا اور یہ عیش پسندی دراصل فرار کی ایک صورت تھی۔ بعض حساس شعرا اپنی جنس ہی سے منحرف ہو گے اور لاشعوری طور پر عورتوں کی تقلید کرنے لگے یہاں تک کہ اس وقت کے نوابین خواتین کے کپڑے پہن کر ان کے لب و لہجے اور محاورے میں بات چیت کرتے تھے۔ شعر ملاحظہ ہو: 


بیگموں میں جو بڑی ہوں تو بھلا تجھ کو کیا 

پہنے پوشاکِ زری ہوں تو بھلا تجھ کو کیا ۔۔۔۔ 


سوال نمبر ۳۵: چئیرمین ، مقالے میں آپ نے شاعر کے کلام کا فنی جائزہ لیا ہے۔یہاں آپ نے “ تجسیم کاری” کا ذکر کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے؟ 


جواب : تجسیم کو انگریزی زبان میں Personification کہاجاتاہے ۔جس سے مراد کسی غیر مرئی شے کوجسم دیناہے۔ کسی جذبے یا احساس کو جسمانی خدوخال یا حرکات عطاکرناہے۔


سوال نمبر ۳۶: لفظ “تجیسم” قواعد کی رو سے فعل ہے یا فاعل؟ 


جواب: سر! فاعل تو بالکل نہیں ہے (یہ سوال مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا) ۔۔۔


- چئیرمین تو پھر کیا ہے اگر فاعل نہیں ؟ فعل ہوا نا۔۔۔ اچھا تکمیل کیا ہے؟


جواب : تکمیل یعنی مکمل کرنا، پورا کرنا ۔ 


سوال نمبر ۳۷: پھر کاری کیا ہے؟ 

جواب: فعل؟ 


سوال نمبر ۳۸: پھر “تجسیم کاری” میں آپ نے دو فعل ایک ساتھ کیوں استعمال کیے ہیں؟ 


جواب: سر! گرائمر کی رو سے غلط العام اصطلاح ہو گی ورنہ یہ لفظ تو آج کل مستعمل ہے ۔ 


- میری تحریر میں ایک جملہ ہائی لائیٹر سے مارک کر کے مجھے پڑھنے کے لیے کہا۔۔۔


جملہ: پرانے وقتوں میں موسیقی کے میدان میں آنے والے لوگ بہت سے استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد موسیقی کے افق پر طلوع ہوتے تھے۔


جملہ پڑھا ۔۔۔ 


سوال نمبر ۳۹: زانوے تلمذ سے کیا مراد ہے؟ 

جواب: شاگردی اختیار کرنا۔ 


سوال نمبر ۴۰: لفظی معنی کیا ہوں گے؟ 

جواب:  ادب سے  دو زانوں ہوکر استاد کے سامنے بیٹھنا

یعنی  ان کے حلقۂ درس میں بیٹھنا


 چئیرمین، ٹھیک ہے ، بہت شکریہ آپ جا سکتی ہیں ۔

- بہت شکریہ سر ، میم 

Post a Comment

0 Comments