مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری
آب گم
مشتاق یوسفی عہد حاضر کے وہ مزاح نگار ہیں جن کی موجودگی اردو ادب میں اس امر کی دلیل ہے کے اس کا دامن حقیقی تخلیق کاروں سے خالی نہیں ہے انہوں نے چراغ تلے لکھ کر دنیاۓ اردو کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا خاکم بدہن اور زرگزشت میں اردو مزاح نگاری میں ان حا کمیت کو اور مستحکم کیا خاص طور پر زرگزشت میں ان کے فن کا جادو سر چڑھ کر بولا اب تک انکی آخری تخلیقی کاوش آب گم ہے جس میں وہ ایک نئے انداز میں جلوہ گر ہوئے ہیں آب گم ترتیب کے اعتبار سے یوسف صاحب کی چوتھی کتاب ہے یہ کتابوں کے تمام پہلی کتابوں سے مختلف ہے اس میں ان کی نظر کی گہرائی پہلے سے کہیں پختہ ہے اور ساخت کے اعتبار سے یو سی صاحب نے جیسا کہ خود کار ناول کے زیادہ قریب ہے جبکہ آل احمد سرور اس کو ناول کے قریب آنے پر رضامند نظر نہیں آتے وہ لکھتے ہیں یوسفی نے اس داستان کو اپنی ساخت ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے پھیلاؤ اور مونتاژ اور فضا بندی کے لحاظ سے بھی ناول کے زیادہ قریب بتایا ہے ناول کرداروں کا جنگل نہیں کرداروں کا کارواں ہوتا ہے اس لئے سے ناول نا کہوں گا مونتاژ کی آراستہ ہے ترتیبی بھی اس میں ضرور جلوہ گر ہے دراصل یہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس میں ہر گوشہ خود ایک نگار خانہ بن جاتا ہے ہر راہ ایک نئ دنیا لے جاتی ہے اور ہر کردار اپنی انوکھی کہانی بتاتا ہے
آب گم کا موضوع
موضوع کے اعتبار سے آب گم ایسے لوگوں کی داستان ہے جو اپنے ماضی پر فخر کرتے ہیں اپنے ماضی میں بس نہ چلنا اور اپنے خوابوں کی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں نفسیاتی توجیح کے اعتبار سے جو لوگ اپنے حالات سے مایوس ہو جائیں وہ ماضی میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اس ماضی پرستی کو نفسیات ناسٹلجیا کر دیتی ہے
یہ کتاب اپنے عنوان کے حوالے سے بڑی موجود ہے ڈاکٹر سہیل احمد کی کتاب کے نام کا تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ آب گم ایسا دریا جو جاتے جاتے ریت میں گم ہو جاتا ہے یہ دریا پانی کے بہاؤ کا نہیں بلکہ ماضی کے بھاؤ کا ہے ایسا ماضی ایسے واقعات جو ریت میں گم ہو گئے ہو یہی آپ گم ہے
آب گم میں یوسفی کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے انہوں نے اس کتاب میں مزا ح کے مختلف فنی ذرائع استعمال کیے ہیں وہ طنز کرتے ہوئے جب سوسائٹی لوگوں اور مختلف کرداروں کو نشانہ بناتے ہیں تو کوئی ایسی چیز نہیں جو اس کی نظر کے سامنے آئے اور بغیر اپنی کمزوری کی نشاندہی کے گزر جائے وہ ہر چیز پر طنز کرتے ہیں خواہ اس میں ان کی اپنی ذات ہی شامل کیوں نہ ہو
جیسا کہ پروفیسر حمید احمد خان نے لکھا ہے
اچھا مزاح نگار وہ ہے جو اپنے آپ کو پرایا بن کر دیکھیں اور پرائے کو اپنا بنا کر دیکھے
ویسے تو یوسفی صاحب کی ساری کتابیں فکاہیہ ادب میں بیش قدر اضافہ ہیں لیکن آب گم ان سب سے بڑھ کرہے آب گم پر تبصرہ کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں
یوسفی حرف آخر کے مزاح نگار
اردو ادب میں مزاح نویسی کی روایت خاصی شاداب ہے جس زبان میں پطرس بخاری عظیم بیگ چغتائی شوکت تھانوی شفیق رحمان محمد خالد اختر ابن انشا اور عطاء الحق قاسمی کے مرتبے کے مزا نویس موجود ہیں اسے کم سے کم اس صنف ادب کے معاملے میں تشنہ نہیں کہا جا سکتا اگر کسی کو تشنگی کی شکایت ہے تو مشتاق احمد یوسفی کی کسی بھی تصنیف خاص طور پر اگر ہم سے پیاس بجھا لینی چاہئے اردو ادب و فن میں حروف آخر کا کوئی وجود نہیں ہے لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اردو کے اب تک مزاحیہ ادب کا حرف آخر مشتاق احمد یوسفی ہیں انہیں مذاق کا ایسا اسم ہاتھ لگا ہے کہ مجال ہے جو ان کی تحریر کا کوئی ایک جملہ بھی پڑھنے والوں کو گدگدائے بغیر مکمل ہوتا ہو
اور اس میں گد گداہت میں اتنی بے ساختگی ہوتی ہے جیسے کلی چٹکتی ہے بعض لوگ اس قلیق کو چاقو کی نوک سے بھی چٹکاتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ لوگ شفتگی سے فیض یاب ہوں گے حالانکہ کسی بھی تخلیقی فن میں اگر تکلف در آئے تو اس کے اثرات منفی ہوتے ہیں یہ تکلف نہ شاعری میں چلتا ہے موسیقی میں اور نام مصوری میں اور مزاح نویسی میں تو بالکل نہیں چلتا کیونکہ آوردر سے برآمد ہونے والے مظاہرے سے نفرت کے بجائے کوفت حاصل ہوتی ہے مشتاق احمد یوسفی نے بھی بے ساختگی اور بے تکلفی سے اردو کے مزاحیہ ادب ہ میں ایسے روشن اور بھرپور افسانے لکھے ہیں اب اگر کوئی نیا ادیب مزاح کے میدان میں قدم رکھا جائے گا تو سوچ سمجھ کر رکھے گا کیوں کہ یوسفی کے معیاروں سے آگے نکلنا تو بجائے خود رہا اس کا ہم قدم بھی رہنا دشوار کام ہے سچا کھرا اور بے ساختہ مزاح پیدا کرنا ویسے بھی ہر کسی کا کام نہیں ہے
ناول آب گم
یہ کتاب موضوع کے حوالے سے کچھ لوگوں کی داستان ہے لیکن صرف لوگ نہیں چند کردار نہیں بلکہ ان کے اداروں میں ایک پوری تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے ایک ملاقات میں جب میں نے انتظار حسین سے یوسفی صاحب کی اس کتاب کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یہ کتاب ناول کے قریب ترین ہے یہ لیکن یہ کردار کا ناول نہیں بلکہ دو تین کرداروں کا ناول ہے اس کے کرداروں میں ایک بھرپور معاشرتی سیاق و سباق ملتا ہے وہ اپنی زبان تہذیب عادات چلت پھرت کے اعتبار سے مختلف طبقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں نہ صرف پاکستان کے مختلف علاقوں میں تہذیب و معاشرت سیاست اور سماج کو زیربحث لاتے ہیں بلکہ زنی کے داروں میں بھی وہ ایک پوری کی پوری داستان تراش لیتے ہیں
انتظار حسین صاحب فرماتے ہیں کہ آپ گم میں دیپاچہ سے لے کر آخر تک سیاسی صورتحال کے جا بجا اشارے ملتے ہیں خاص طور پر کراچی کے حوالے سے انھوں نے سیاسی اور سماجی صورتحال کا ذکر کیا ہے
کتاب کی ابتدا دیباچہ غنودیم غنودیم سے لے کر آخر تک کبھی طنز کرتے ہوئے کبھی ہنستے ہوئے اور کبھی سنجیدہ ہوتے ہوئے وہ ہمارے سیاسی رویوں پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں دیباچہ میں دیکھیں انہوں نے اپنی ذاتی زندگی ادبی زندگی اور اپنی قومی زندگی کا کس طرح تجزیہ کیا ہے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو ذاتی ادبی پیشہ ورانہ سیاسی اور قومی اعتبار سے اس عشرہ راۂگاں میں زبان کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ سب کچھ کھو کر بھی کچھ نہ پایا
لیڈر خود غرض علما مصلحت بین عوام خوفزدہ اور راضی بہ رضائے حاکم دانش اور خوشامدی اور کھوکھلے ہو جائیں تو جمہوریت ایسا آمریت کو راہ دیتی چلی جاتی ہے پھر کوئی طالع آزما آمر ملک کو غضبناک نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے تیسری دنیا کے کسی بھی ملک کے حالات پر نظر ڈالی ہے ڈکٹیٹر خود نہیں آتا لایا اور بلایا جاتا ہے اور جب آجاتا ہے تو قیامت اس کے ہم رکاب آتی ہے
انداز طنز
مشتاق احمد یوسفی کی طنز کی خصوصیات کی یہ ہے کہ بڑے نرم اور بعد میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں اگرچہ ان کا لہجہ تلخ نہیں ہوتا نہ ہی اس میں زہر نہ کی کی کیفیت ہے لیکن اس کے باوجود ان کا دم ساز اپنے صحیح ہدف تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ جاتا ہے ایک اور مثال دیکھیے کہ جہاں پر کسی طرح سے سیاسی مفہوم بنتے اور بگڑتے ہیں
حلوہ پلاؤ کھا کھا کر تم ملا لوگ ایک دوسرے کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے اور سمجھتے ہوں کہ اللہ کی رسی کو پکڑ رہے ہو
اب گم ترتیب کے لحاظ سے یوسفی کی چوتھی کتاب ہے اس سے پہلے یوسفی صاحب کی تین کتابیں چراغ تلے خاکم بدہن زرگزشت منظر عام پر آچکی ہیں یہ کتاب فنی ارتقاء کے لحاظ سے یوسفی صاحب کی سب سے بہترین کتاب ہے اس کتاب کا موضوع ناسٹلجیا ہے جس میں کچھ ماضی زدہ کردار اپنے ماضی کو سینوں سے چمٹاۓ ہوئے آگے بڑھتے ہیں لیکن آگے کم بڑھتے ہیں زیادہ پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں جیسے انکا ماضی کہیں کھو گیا ہو اور وہ زندگی کا سانس پورا کرنے کے لئے ساتھ ساتھ اس ماضی کی تلاش میں بھی رہتے ہیں یہ کتاب اپنی کردار نگاری ،اسلوب ،فضابندی کے اعتبار سے موجودہ دور کے ادب کا قیمتی سرمایہ ہے
0 Comments