Drama nigari||ڈرامہ نگاری||ڈرامے کی اقسام ||ڈرامے کے کردار



Drama Nigari

” ڈراما اور اس کی اقسام “

ڈراما یونانی لفظ ’’ڈرا‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ’’کر کے دکھانا‘‘ ہیں۔

دوسرے لفظوں میں ڈراما ایک کہانی ہے جو کرداروں کے عمل سے اور زبان سے ادا ہوتی ہے۔ گویا ڈراما، الفاظ اور عمل کے مجموعے کا نام ہے۔

ڈراما کی تعریف ایک انگریز نقاد نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’ڈراما ایک نقالی جو حرکت (عمل) اور تقریر (مکالمہ) کے وسیلے سے کی جاتی ہے۔‘‘
اُردو ڈرامے کے مشہور ناقد ڈاکٹر محمد اسلم قریشی کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ڈراما اسٹیج پر فطرت کی نقالی کا ایک ایسا فن ہے جس میں اداکاروں کے ذریعے زندگی کے غیر معمولی اور غیر متوقع حالات کے عمل میں ’’قوتِ ارادی‘‘ کا مظاہرہ تماشائیوں کے روبرو ایک معین وقت اور مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔‘‘
ڈرامے کی اس تعریف میں جہاں کہانی، کردار، عمل اور مکالمے کو ضروری عناصر قرار دیا گیا ہے، وہاں اسٹیج اور تماشائی بھی اس کے دو اہم کردار ہیں، جس طرح اسٹیج کی ضرورتوں کا خیال رکھے بغیر اچھا ڈراما نہیں لکھا جاسکتا۔ اس طرح تماشائی، نفسیات اور اس کی پسند کو دھیان میں رکھے بغیر بھی ڈرامے کی کامیابی ممکن نہیں۔
ڈرامے کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

٭ المیہ یا ٹریجڈی:۔ 

وہ ڈراما جس میں پیش کیے جانے والے حادثات و واقعات دردناک ہوں یا اس کا انجام المیہ یا حزنیہ ہو، ٹریجڈی (Tragedy) یا المیہ کہلاتا 
ہے۔

٭ طربیہ یا کامیڈی:۔ 

 وہ ڈراما جس کی اساس معاشرے کی کوئی ناہمواری یا کمزوری ہو اور اسے طنزیہ مِزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہو، طربیہ یا کامیڈی کہلاتا ہے۔ جس ڈرامے کا انجام طربیہ ہو، وہ بھی ڈرامے کی اس قسم کے تحت شمار کیا جاتا ہے۔

٭ میلو ڈراما:۔ 

ڈرامے کی یہ قدیم صورت ہے۔ اس میں شاعری اور موسیقی کا بہت عمل دخل ہوتا ہے اور اس کی فضا رومانی اور جذباتی ہوتی ہے۔ ڈرامے کا انجام عموماً طربیہ ہوتا ہے۔ میلو ڈراما یونانی لفظ "Melos” بمعنی موسیقی اور فرانسیسی لفظ ڈراما سے مل کر بنا ہے۔ کرداروں کی خود کلامی بھی میلو ڈرامے میں پائی جاتی ہے۔ ڈرامے کی یہ قسم محبت اور عقیدت کے اظہار کے لیے موزوں ترین ہے۔

٭ فارس:۔ 

ڈراما کا وہ روپ ہے جس کا بڑا مقصد ناظر کے لیے تفریحِ طبع کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے عموماً سطحی ظرافت اور مضحکہ خیز واقعات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عوام میں ڈرامے کی یہ قسم بہت مقبول ہے۔

٭ برلیسک :۔

برلیسک (Burlasque) ڈرامے کی ایسی قسم ہے جس میں پست اور گھٹیا درجے کا مِزاح پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں بھانڈوں کی طرح مشہور شخصیات کی نقلیں اتاری جاتی ہیں اور ناظرین کی تفنن طبع کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

٭ اوپیرا:۔ 

 اوپیرا (Opera)ایک منظوم ڈراما ہوتا ہے جس کی کہانی اور پلاٹ المیہ بھی ہوسکتا ہے اور طربیہ بھی۔ ڈرامے کی فضا اور ماحول جزوی یا کلی طور پر غنائیت (موسیقیت) کا حامل ہوتا ہے۔ ڈراما کی یہ قسم بھی بڑی قدیم ہے۔
دورِ حاضر کی ضرورت کے مطابق ڈرامے میں درجِ ذیل قسموں کا اضافہ بھی ہوا ہے:

٭ یک بابی ڈراما (One Act Play)

٭ ریڈیو ڈراما

٭ ٹی وی ڈراما

(’’ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم‘‘ کی تالیف ’’اصنافِ اُردو‘‘ ، ناشر ’’بک کارنر‘‘، تاریخِ اشاعت 2 3مارچ 2018ء، صفحہ نمبر 34 تا 38 سے انتخاب)



Drama Nigari

The history of "dramatic writing" or "dramaturgy" spans centuries and is influenced by various cultures and theatrical traditions. Here is a brief overview of its evolution:

Ancient Theater: The origins of dramatic writing can be traced back to ancient civilizations such as Greece, Rome, Egypt, and India. Greek theater, particularly the works of playwrights like Aeschylus, Sophocles, and Euripides, laid the foundation for Western dramatic tradition. Indian theater, with its rich traditions of Sanskrit drama, also contributed significantly to early dramatic writing.

Medieval Theater: During the Middle Ages, dramatic writing in Europe was largely centered around religious themes and morality plays. The plays were often performed in churches and focused on teaching moral lessons to the audience.

Renaissance and Elizabethan Theater: The Renaissance period saw a revival of interest in classical Greek and Roman drama, leading to a flourishing of dramatic writing in Europe. The Elizabethan era in England, with playwrights like William Shakespeare, Christopher Marlowe, and Ben Jonson, is considered a golden age of English drama.  
Modern Theater: The 19th and 20th centuries witnessed significant changes in dramatic writing. Realism emerged as a dominant style, focusing on depicting life as it is, without idealization. Playwrights like Henrik Ibsen, Anton Chekhov, and Tennessee Williams are known for their contributions to realist drama. The 20th century also saw the rise of experimental and avant-garde theater, with playwrights like Samuel Beckett and Bertolt Brecht pushing the boundaries of traditional dramatic writing.

Contemporary Theater: In recent decades, dramatic writing has continued to evolve, with playwrights exploring new forms, styles, and themes. Issues such as identity, politics, and social justice have become prominent in contemporary theater, reflecting the changing concerns of society.

Overall, the history of dramatic writing is a testament to the creativity and diversity of human expression, showcasing how storytelling through theater has evolved over time to reflect the cultural, social, and political contexts of different eras.

"ڈرامائی تحریر" یا "ڈرامہ سازی" کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے اور مختلف ثقافتوں اور تھیٹر کی روایات سے متاثر ہے۔ یہاں اس کے ارتقاء کا ایک مختصر جائزہ ہے:
قدیم تھیٹر:
 ڈرامائی تحریر کی ابتدا قدیم تہذیبوں جیسے یونان، روم، مصر اور ہندوستان سے کی جا سکتی ہے۔ یونانی تھیٹر، خاص طور پر ڈرامہ نگاروں کے کام جیسے Aeschylus، Sophocles، اور Euripides، نے مغربی ڈرامائی روایت کی بنیاد رکھی۔ ہندوستانی تھیٹر نے، سنسکرت ڈرامے کی اپنی بھرپور روایات کے ساتھ، ابتدائی ڈرامائی تحریر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
قرون وسطی کا تھیٹر:
قرون وسطی کے دوران، یورپ میں ڈرامائی تحریر زیادہ تر مذہبی موضوعات اور اخلاقی ڈراموں کے گرد مرکوز تھی۔ ڈرامے اکثر گرجا گھروں میں پیش کیے جاتے تھے اور سامعین کو اخلاقی سبق سکھانے پر توجہ مرکوز کرتے تھے۔
نشاۃ ثانیہ اور الزبیتھن تھیٹر:
نشاۃ ثانیہ کے دور نے کلاسیکی یونانی اور رومن ڈراموں میں دلچسپی کا احیاء دیکھا، جس کے نتیجے میں یورپ میں ڈرامائی تحریر کو فروغ ملا۔ ولیم شیکسپیئر، کرسٹوفر مارلو اور بین جونسن جیسے ڈرامہ نگاروں کے ساتھ انگلینڈ میں الزبیتھن دور کو انگریزی ڈرامے کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔
جدید تھیٹر: 19
 ویں اور 20ویں صدی میں ڈرامائی تحریر میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ حقیقت پسندی ایک غالب اسلوب کے طور پر ابھری، جس نے زندگی کی تصویر کشی پر توجہ مرکوز کی، بغیر مثال کے۔ ہنریک ابسن، اینٹون چیخوف، اور ٹینیسی ولیمز جیسے ڈرامہ نگار حقیقت پسندانہ ڈرامے میں اپنی شراکت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ 20ویں صدی میں تجرباتی اور avant-garde تھیٹر کا عروج بھی دیکھا گیا، جس میں سیموئیل بیکٹ اور برٹولٹ بریخٹ جیسے ڈرامہ نگاروں نے روایتی ڈرامائی تحریر کی حدود کو آگے بڑھایا۔
ہم عصر تھیٹر:
حالیہ دہائیوں میں ڈرامائی تحریروں کا ارتقاء جاری ہے، ڈرامہ نگاروں نے نئی شکلوں، طرزوں اور موضوعات کی تلاش کی۔ معاصر تھیٹر میں شناخت، سیاست اور سماجی انصاف جیسے مسائل نمایاں ہو چکے ہیں، جو معاشرے کے بدلتے ہوئے خدشات کی عکاسی کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر، ڈرامائی تحریر کی تاریخ انسانی اظہار کی تخلیقی صلاحیتوں اور تنوع کا ثبوت ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تھیٹر کے ذریعے کہانی سنانے کا 
طریقہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار کے ثقافتی، سماجی اور سیاسی سیاق و سباق کی عکاسی کرنے کے لیے تیار ہوا ہے۔

پیدائش کے اعتبار سے ڈرامہ نگاروں کی زمانی ترتیب 

امانت(1815)

👈آغا حشرؔ کاشمیری(1879)

👈امتیاز علی تاج(1900)

👈حبیب تنویر(1923)

👈محمد حسن(1926)

ڈرامے

نام

کمرہ نمبر5.      

انار کلی

امتیاز علی تاج1900 – 1970

جہاں آراء

چچا چھکن

 

بیگم کی بلی

گونگی جورو

 

ترقی پسند مشاعرہ

تعلیم  بالغاں

خواجہ معین دین   1924- 1971

زوال حیدرآباد

انتخابی جلسہ

 

مرزا غالب بند روڈ پر

وادی کشمیر

 

 

لال قلعہ سے لالو کھیت

 

فتنہ جانم

نیرنگ عشق

حسینی میاں ظریف

اکسیر اعظم

خدا دوست

 

تنہائیاں

انکل عرفی

حسینہ معین

پل دو پل

پرچھائیاں

 

تان سین

دیس پردیس

 

کیسا یہ جنون

دھندلے رستے

 

کہر

آنسو

 

آہٹ

بندش

 

پڑوسی

ان کہی

 

تم سے مل کر

دھند

 

چھوٹی سی کہانی

جانے انجانے

 

زیر زبر پیش

کرن کہانی

 

فسادی

ساقی

عصمت چغتائی

سانپ

دھاتی بانکپن

 

 

آگرہ بازار

حبیب تنویر

نکل مکانی

سات کھیل

راجندر سنگھ بیدی

 

خواجہ سرا

 

افشاں

عروسہ

فاطمہ ثریا بجیا

ایک کہانی بہت پرانی

زینت

 

 

شمع کس کا

 

انناس

سرخ گلاب کی واپسی

خواجہ  احمد عباس

ایٹم بم

زبیدہ

 

یہودی کی لڑکی

رستم سہراب

آغا حشر کاشمیری

خود پرست

شیریں فرہاد

 

آتش طوفان

عورت کا پیار

 

خون نا حق

شیر کی گرج

 

دل کی پیاس

سفید خون

 

آفتاب محمد (پہلا ڈرامہ)

شہید ناز

 

آنگن ٹیڑھا

ففٹی ففٹی

انور مقصود

سٹوڈیو پونے تین

ہاف پلیٹ

 

دروازہ کھول دو

فٹ پاتھ کے فرشتے

کرشن چندر

 

قاہرہ کی شام

 

آخری فرعون

باپ کا گناہ

حکیم احمد شجاع

 

کاروان حیات

 

حبہ خاتون

خانہ جنگی

پروفیسر مجیب

 

آزمائش

 

دل کی پیاس

خون جگر

بیگم اختر حیات

مرید رشک

رستم سہراب

 

آفتاب محبت

جنگل کی رانی

 

 

بس سٹاپ

سید معز الدین احمد

طلسم اسرار

لیلی مجنوں

مرزا ہادی رسوا

شہید وفا

بیوہ

عبدالحلیم شرر

 

میوہ تلخ

 

 

سیب کا درخت

پطرس بخاری

 

راج دلاری

پنڈت دتریہ کیفی

 

یہ کس کا خون ہے

علی سردار جعفری

 

مٹی کا بلاوا

شمیم حفضی

 

کایا پلٹ

پنڈت کشن لاہوری

 

شام اودھ

شبیر صدیقی

 

قاسم وزیر

شوق قدوائی

 

ایک تھا راجہ

کمال احمد رضوی

 

آخری شمع

کیفی اعظمی

بیوہ

زود پشیماں

عبدالماجددریا آبادی

 

کربلا

پریم چند

آزمائش

خانہ جنگی

محمد مجیب

دوسری شام

ہیروئن کی تلاش

 

کھیتی

دارالشکوہ

 

سات کھیل

پردہ غفلت

عابد حسین عابد

دو ہزار سال

تلون

منٹو

قانون کی حفاظت

تین انگلیاں

 

تحفہ

ایک مرد

 

خونی تھوک

اس منجدھار میں

 

 

کمیشن

 

ضحاک

پیسہ اور پر چھائیں

محمد حسن عسکری

لہو اور قالین

آنسو اور ستار

مرزا ادیب

پس پردہ

شیشے کی دیوار

 

قتل نظیر

مہا بھارت

بے تاب

زہریلی سانپ

فریب محبت

 

 

گو رکھ دھندا

 

 

بساط

بابر سلطان

 

ناٹک ساگر

صاحبزادہ محمد عمر

لیل و نہار

پردہ غفلت

طالب بنارسی

نازاں

دلیر دل شیر

 

سات کھیل

پردہ غفلت

امانت لکھنوی

روح سیاست

جان ظرافت

محمد عمر

 

جنگ روس و جاپان

ظفر علی خان

اکبر

فٹ پاتھ کے شہزادے

محمد حسین آزاد

محل سرا

مور پنکھ

 

 

رادھا کنہیا

واجد علی شاہ

 

نظام سقہ

ممتاز مفتی

 

بیوہ

عبدالماجد دریا آبادی

 

بھیگی بستی

سمیع الحق

 

جواں بخت

مہر واں جی آرام

زندگی کا کھیل

بنیادی حق

صالحہ عابد  حسین

 

عفت

 

ادبی ڈرامے

سروچراغاں

اعجاز حسین

 

آوازوں کے قیدی

انور عظیم

 

غالب کون ہے

سید محمد مہدی

 

پہلے آپ

افتخار عالم خان

مشکل راہ

پیش و پس

زہرہ جبیں

 

صبح کے پھول

 

 

زندہ دل روحیں

شیخ سلیم احمد

 

اجالے سے پہلے

ابراہیم جیلس

 

ننگے پاؤں

اشفاق احمد

 

شکنتلا اور واکراروسی

کالی داس

 

برزخ کا مشاعرہ

محمد حسین

 

خوارزم شاہ

سجاد حیدر یلدرم

 

سورج قید سے چھوٹ گیا

عقیل روبی

 

بیمار

سجاد ظہیر

 

صید زبوں

ڈاکٹر اشتیاق حسین

 

پگھلا گھوڑا

بادل سرکار

مور کے پاؤں

کشکول

کمال الدین احمد

 

الٹی گنگا

 

پیکر آواز

آواز نما

محمد خالد عابدی

عورت

مسیحا

ساگر سرحدی

 

یہ کس کا فون ہے

سردار علی جعفری

 

ARMS AND THE MANS

برنارڈ شاہ

ڈرامے کے کردار

کردار

ڈرامہ

 

دلارام

انار کلی

سلیم

اکبر

انار کلی

ضیا فاروقی

اقبال

حمن

اصغر حسین

عبدالستار

آگرہ بازار

جواد

رقیہ

سعیدہ

منظور حسین

الطاف  حسین

پردہ غفلت

کالا دیو

گلنام

پکھراج  پری

نیلم پری

اندر

اندر سبھا

قاسم

احمد حسین

نر  گس

زرینہ

شاہد

بھیگی بستی

 


نام

عنوان

سیریل

250

ڈرامہ تعلیم بالغاں کتنی مرتبہ اسٹیج ہوا

1.       

3

احمد ندیم قاسمی نے بچوں کیلیے ڈرامے لکھے

2.       

22

ایک محبت سو افسانے میں ڈرامے

3.       

12

اشفاق احمد کے ڈرامے

4.       

400

اشفاق احمد کے کل  ڈرامے

5.       

48

ریڈیو پر چلنے والے ڈرامے

6.       

ارسطو

ڈرامے کی ساخت کے متعلق وحدت عمل UNITY OF ACTION  کا پہلا اصول کس نے ادا کیا

7.       

3

ڈرامے میں کتنی وحدتیں ہوتی ہیں

8.       

15

امانت لکھنوی نے کتنی عمر میں شاعری شروع کی

9.       

30

اور کتنی عمر میں زبان ہو گئی

10.   


Post a Comment

0 Comments