Kishwar Naheed||کشور ناہید ||کشور ناہید کے حالات زندگی ||بری عورت کی کتھا


Kishwar Naheed      کشور ناہید 

 

 بری عورت کی کتھا کشور ناہید کی خود نوشت آپ بیتی ہے جو سنگ میل پبلیکیشنز لاہور کے زیراہتمام 2008 میں شائع ہوئی تھی اس کا انتساب کشور ناہید نے اپنے بیٹوں میں سے دو اور فیصل کے نام کیا ہے کتاب کا دیباچہ کس شاعر نے خود لکھا ہے جس کا عنوان اپنے پڑھنے والوں کے نام ہے

 اس کے بعد پہلی سیڑھی ، پہلا قدم ،پہلا سجدہ ،پہلا نام ،پہلا جلوا، پہلی لفظی، مالک کی کہانی ،قصہ میرا کی اداسی کا  یشودھرا کا جنم، دے تاجری بے ناقوس ،لیلی ہنٹروالی، ٹوک در ،گلو سنا اور حوا اور ابن آدم کے ذیلی عنوانات کے تحت اس کی ابواب بندی کی گئی ہے آخر میں تصاویربھی شامل کی گئی ہیں

 کشور ناہید اردو ادب میں ایک معتبر نام ہے ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے جو وہ ترقی پسند فکر کے حوالے سے ایک پہچان رکھتی ہیں وہاں وہ ہمارے اس معاشرے میں عورت کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا پردہ بھی چاک کرتی دکھائی دیتی ہیں اپنے فن کی نزاکتوں کو نبھانے سے وہ تو زیادہ اعتراض نہیں کرتی لیکن اس معاشرے کے کرتا دھرتا اصحاب کے خلاف  منافقانہ رویوں اور ان کی سیاہ کاروں کی پرتوں کو کھولتے بھی ان کے فن اور ان کا اعتماد اپنے قارئین کو بھی ایک تقویت دیتا ہے اور معاشرے کے ساتھ الیانا سے ٹکرا جانے کا حوصلہ بھی دیتا ہے

 بری عورت کی کتھا چوتھا باب پر مشتمل سوانح حیات ہے بندروں اپنے پڑھنے والوں کے نام سے بیان کیا گیا ہے اور سوانح حیات کے آخر میں مختلف نعت سے تصاویر شائع کی گئی ہیں

 ابواب کی ترتیب اور عنوانات کے ساتھ ان کی ساخت اس طرح سے ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کے نام دو صفات پر مشتمل ہیں پہلا باب پہلا سین وصفات میں ہیں پہلا قدم دوسرا قدم دوسرا باب ہے اس کی آٹھ صفات ہیں پہلا سعید تیسرا باؤ ہے آٹھ صفات میں چوتھا باب پہلا سلم کے بارہ صفات ہیں پہلا جلوہ پانچواں باب ہے جو گیارہ سال پر مشتمل ہے ٹیلینور چھٹا باب جس کے تیرا صفات ہیں مال کا کی کہانی جو ساتواں باب 15 صفحات پر مشتمل ہے آٹھواں باب کچا میرا کیتا سی کا تین صفحات پر مشتمل ہے یہ شوریٰ کا جناب نواب اے اس کے ساتھ ساتھ ہی تاجری دسواں باب ہے اس کی آٹھ صفات ہیں بے نقاب صلی لی گیارہواں باب 8 صفحات پر مشتمل ہے بارہواں باب ہنٹر والی سات صفات میں ہے تو آپ در گلو سنا ہے جس کے آٹھ صفات ہیں اور ابن آدم چودہواں باب ہے جو چار صفحات پر مشتمل ہے

 سوانح حیات کے آخر میں جو تصاویر شائع کی گئی ہیں ان کے عنوانات درج ذیل ہیں 

 چودہ سال سے پچاسویں سال تک

سفر در سفر

 پرتو خورشید   

 داستان ہم سفری

 گواہی

 اپنے پڑھنے والوں کے نام میں کشور ناہید نے آپ بیتی کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ کہانی ایک عورت کی یا ایک مرد کی کہانی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی کہانی ہے ایسے معاشرے کی جس میں بڑی بڑی باتیں تو نظر انداز کر دی جاتی ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی غلطیاں ناقابل نجم بن جاتی ہے اسی طرح انیس سو چالیس سے لے کر اب تک برصغیر کے معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اپنی سوانح کے بارے میں کشور ناہید کہتی ہیں کہ یہ تحریر کسی کیلنڈر یا زندگی کی سیڑھیوں کو درجہ بدرجہ پیک کرنے کی روداد نہیں ہے وون گاف کی ایک پینٹنگ ہے جس کا عنوان ہے

 جوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کس کے ہیں

 پہلی سیڑھی پہلا باب ہے جس میں کشمیر نہیں دے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کا شکار کرنے والی عورت کو مختلف حیثیتوں سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس  حوالے سے قصور نہیں نے بہت سی خواتین کا ذکر کیا ہے جس میں یشودھرا سیتا رانی اساطیری دیوی سیفو ماریا نورجہاں قرۃ العین طاہرہ امراؤجانادا ملکہ ایم ازابیلا روس کی ترین اور آسٹریا کی تھریسا شامل ہیں 

کشور ناہید(Kishwar Naheed)    

  کشور ناہید کی حالات زندگی

   کے اعتبار سے ننھیالی خاندان مالی اعتبار سے کافی خوش حال تھا ان کے نانا فضل الرحمان وکیل تھے ان کی نانی محلے بھر کے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی تھی ضروریاتزندگی کی تمام تر چیزیں گھر پر ہی تیار کی جاتی دوپٹے رنگنے سے لے کر کتابوں کی جلد سازی تک گھروں میں ہی ہوتی تھی نئے کپڑے جوتے صرف عید پر ہی خریدے جاتے تھے سردیوں میں تنگ پجامی اور باقی ہر طرح کے موسمی ساڑھیاں اور غرارے پہنے جاتے تھے پردے کا بہت سخت رواج تھا پردے کے معاملے میں ہندو مسلم گاؤں میں کوئی خاص فرق نہ تھا  خواتین دہلی میں بیٹھ کر سفر کرتی تھیں جن کو چھپانے کے لیے ڈولی میں پتھر رکھ دیا جاتا تھا کشور ناہید نے اپنے والد کا نوکری کے لئے شہر شہر گھومنے کا بھی ذکر کیا ہے اور گھروں میں ترجحیات کے بارے میں بتایا ہے کہ گھر عموما دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے مردان خانہ صرف مردوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور باقی گھر میں دوسرے افراد رہتے تھے اسی طرح کشور نہیں دنیا صبح میں آپ نے اماں ابا کے اپس میں جھگڑے اور منانے کے انداز کو بیان کیا ہے

  دوسرا باب پہلا قدم میں کشور ناہید نے دوسری جنگ عظیم اور تحریک پاکستان دونوں کے اثرات کو بیان کیا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد لوگوں کو ضرورت زندگی پورا کرنے کے لیے بہت مشکلات اٹھانا پڑی وہ دور شدید مہنگائی اور کامیابی کا دور تھا کشور ناہید کا خاندان جس علاقے میں آباد تھا وہ دو حصوں میں بٹا ہوا تھا ایک حصہ اوپر کوٹ کہلاتا تھا اور دوسرا نیچا کوٹ کہلاتا تھا عمر کوٹ میں مسلمان آباد تھے اور نیچے کورٹ میں زیادہ تر ہندو آباد تھے  اس دور میں ہندو اور مسلمانوں میں کوئی تاثر نہ تھا ہندو مسلمان دیوالی صحرا اور ہولی مل کر مناتے تھے اسی طرح عید بقر عید پر بھی عیسائی اور ہندو سبھی شامل ہوتے تھے اور وہ بھی سب کے لیے اسی طرف ہوتا ہے جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو مردوں اور عورتوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا پہلے عورتوں اور مردوں کے جلسے علیحدہ علیحدہ ہوتے تھے مگر پھر مشترکہ جلسے شدت اختیار کرنے لگے

 16 اگست 1947 کو تقسیم ہندوستان کا اعلان ہونے کے بعد کس طرح نہایت کے والد کو گرفتار کر لیا گیا وہ اپنے والد کو کھانا دینے جیل جایا کرتی تھی جیل کی سلاخوں اور مہر سے وہ بچپن میں ہی مانوں گی جب 1970 میں ان کے شوہر یوسف کو گرفتار کیا گیا ان سے ملنے کے لیے اور بعد میں اپنے دوستوں کو جیل میں ملنے کے لیے جانا ان کے لیے نیا تجربہ نہ تھا کشور ناہید نے اسی باب میں موصل یہ صومالیہ گانا فلسطین کشمیر اور بنگال میں انسانی بے بسی اور ظلم و بربریت کی ناقابل یقین مثالیں بیان کی ہیں کشور ناہید اور ان کا خاندان 1949 میں ڈیکوٹا جہاز کے ذریعہ دہلی سے لاہور پہنچا اپنا گھر بار عزیزواقارب اور سہولیات چھوڑنے کا دکھ ان کی ذات کا حصہ بن گیا پاکستان آنے کے بعد بھی ان کے گھر ماحول کی سختیاں اور رکاوٹیں بدستور قائم رہی

 پہلا سجدہ تیسرا باب ہے جس میں کشور ناہید نے اپنے گھر کے مذہبی ماحول کی نشاندہی کی ہے سید خاندان ہونے کی وجہ سے شہر کے ارد گرد کا ماحول کی ضرورت سے زیادہ مذہبی تھا لڑکیوں کی تعلیم صرف قرآن مجید کی تعلیم تک محدود تھی کشور ناہید نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید پڑھ لیا تھا

 کشور ناہید کے سب گھر والے نماز روزے کے پابند تھے شروع میں کثرت کا مذہب کی طرف رجحان کم تھا لیکن پاکستان آنے کے بعد دن رات قرآن شریف پڑھنا تہجد کی نماز پڑھنا اور وظیفہ کرنا ان کا معمول بن گیا اسباب میں کشور ناہید نے معاشرے میں عورت کے مقام کی وضاحت کی ہے کہ عورت کو ہمیشہ کمتر مخلوق سمجھا جاتا ہے اسے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے مرد اپنے فائدے اور اپنی ذات کی تسکین کے لئے عورت کا استعمال کرتا ہے کشور ناہید کے مطابق 1979 سے 1993 تک شوہر بھائی اور باپ کی حیثیت سے مرد نے عورت کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا تاکہ ان کی اپنی زندگی میں آسودگی اس کی

 ہمارے معاشرے میں مرد کی حیثیت خدا کی ہے جس کی تابعداری عورت پر فرض ہے مرد کے سامنے عورت کچھ بھی نہیں اس کے کہ وہ اپنے خاندان کی خدمت کرے شوہر کو خوش رکھے اور اس کے بچوں کی پرورش کرے  کشور ناہید کے مطابق اس کی ایک دوست آلو میری کہتی ہے عورت ماہ بچہ پیدا کرتی ہے آپ پیدا کرنے والے کو خدا کہتے ہیں اور عورت کی ہمسری سے انکار کرتے ہیں

 اس باب میں  کشور ناہید1982 فرانسیسی مفکر خاتون ایمو دی بواقی سیکنڈ سیکس کا ترجمہ عورت ایک نفسیاتی مطالعہ کے نام سے کیا تھا کے بارے میں بتایا ہے جس پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ یہ کتاب مذہبی اخلاقیات کے دائرے سے تجاوز کرتی ہے ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر بڑی بڑی زیادتی ہوجاتی ہیں اور بڑے بڑے جرائم دبا دیے جاتے ہیں

 ہیلو صنم چوتھا باب ہے جس میں کشور ناہید نے اپنے تعلیمی سفر کے بارے میں بتایا ہے لاہور منتقل ہونے کے بعد 1953 تک شوہر کے والدین کے پاس اپنی باقاعدہ رہائش گاہ تھی جس کی وجہ سے چند سال تک تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا کشور کے والد نے پاکستان میں رہائش کے لیے کوئی کلیم داخل نہ کروایا جس کی وجہ سے انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا بہرحال 1953میں لوگ گڑھی شاہو کی بستی محمد نگر منتقل ہو گئے یہاں سردار سکول گڑھی شاہو سے کشور ناہید نے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا 

خلاصہ

"بری عورت کی کتھا" کہانی میں بری عورت کو کشورناھید کی آپ بیتی کہلاتی ہے۔ اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

کشورناھید ایک راجہ تھے جن کی ایک بہت ہی خوبصورت اور متعلقہ بیٹی تھی۔ ان کی بیٹی نے اپنے خوبصورتی اور عقلمندی کی وجہ سے کئی راجاوں اور شاہزادوں کی دل کشائی کی تھی، لیکن کوئی بھی اُن کی پسندیدہ نہیں بن سکا۔ ایک دن، ایک جوان شخص کشورناھید کے دربار میں آیا اور اُس نے بتایا کہ اُس نے ایک غریب عورت کو اپنی دل کی رانی بنایا ہے۔ کشورناھید کی بیٹی نے اس اپنے باپ کے فیصلے کی مخالفت کی، لیکن کشورناھید نے اُسے سن لیا۔ وہ عورت کو محبت کے ساتھ اپنے گھر لے آیا اور اُسے اپنی دل کی رانی قرار دیا۔

لیکن جلد ہی سب بہرے پتھر بن گئے اور کشورناھید کی محبت بدل گئی۔ اُنہوں نے بری عورت کو سختیوں اور زیادتی کا نشانہ بنایا اور اُسے بے رحمی سے معاملہ کیا۔ بری عورت نے اپنی بے بسی کا آغاز کیا اور اُس نے اپنے بیٹے کے زندگی کے لئے دعا کی۔ اُن کی دعاؤں کا اثر ہوا اور اُن کا بیٹا ایک خوبصورت بچہ کو دنیا میں لایا۔

کہانی کا خاتمہ یہ ہے کہ بری عورت کی صبر اور دعاؤں نے اُس کی مصیبت کو تبدیل کیا اور اُس نے اپنے بیٹے کے زندگی کے لئےخوشیوں کا راستہ دکھایا

Post a Comment

0 Comments