منیر نیازی کی شاعری کے موضوعات کیا ہیں؟
منیر نیازی کی شاعری میں ہجرت کا کرب اور یاد ماضی کا عنصر؟
منیر نیازی کی شاعری کا مرکزی پہلو یاد ہے؟
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
قیام پاکستان بیسویں صدی کا عظیم واقعہ تھا تقسیم ہند اپنے ساتھ ہجرت بدترین فسادات قتل و غارت گری لوٹ مار خود غرضی اور بے حسی جیسے ان گنت ہوش ربا سامان لائی شہر سنسان دکھائی دینے لگے محفل بے رونق ہو گئی سماجی عدم تحفظ اور معاشرتی شکست و ریخت نے نہ صرف مرد کے خواب چکنا چور کر دیے بلکہ افراد کو سر تا پا ٹکڑے ٹکڑے کردیا زندگی اور موت میں برائے نام فرق باقی رہ گیا
ہجرت اور فسادات کے نتیجے میں لوٹ جانے والی بستیاں میر تقی میر کے عزیز از جان شہر دہلی کی تباہی و بربادی کی داستان دوہرانے لگی تو دنیائے شاعری میں پیروی میر کا رجحان عام ہو گیا میر تقی میر نے اپنے عہد کا نو حہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ
اب خرابہ ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا
اب شہر ہر طرف سے ویران ہو گیا ہے
پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابہ
منیر نیازی کے اجتہاد میں اس فضا کا اثر عمل زیادہ ہے جو رنگ بدلتے موسموں اور مزاج بدلتے انسانوں سے مرتب ہوتی دیدہ حیران سے حیریت کو مٹا دیتی ہے اور خوف اور بے اعتباری کو مجسم کر دیتی ہے ان کی غزل میں الفاظ کا نیا روپ اختیار کرتے اور معنوی طور پر ایک نئی پرت الٹتے ہیں انکے وجدانی اسلوب کو طرز منیر سے تعبیر کرنا مناسب ہے
ایک آسیب لرزاں مکانوں میں ہے
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے
تقسیم ہند سے پہلے جو شہر دلہنوں کی طرح سجے سنورے نظر آتے تھے وہ گلیاں جو رونق اور چہل پہل سے مزین تھی وہ گھر جن کی بنیادیں محبت اور خلوص کی مٹی سے گوندھ کر رکھی گئی تھی تقسیم کے بعد یکلخت سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا صدیوں سے ایک دوسرے کی خوشی غم میں برابر کے شریک رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے رنگ و نسل اور مذہب کی تفریق نے جان و مال اور عزت و آبرو کے چیتھڑے اڑا کے رکھ دیئے شہر ویران ہو گئے گھر سنسان مکانوں میں تبدیل ہوگئے اور گلیاں کٹے پھٹے جسموں اور خاک و خون سے لتھڑی ہوئی اسی درد ناک صورت حال کو منیر نیازی نے کچھ اس طرح بیان کیا
کر دیا ان دنوں کو کے آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئی
یہ بے صدا سنگ و در اکیلے
اجاڑ سنسان گھر اکیلے
شفق کا رنگ جھلکتا تھا لال شیشوں میں
تمام اجڑا مکاں شام کی پناہ میں تھا
ساعت ہجراں ہیں اب کیسے جہانوں میں رہوں
کن علاقوں میں بسوں کن مکانوں میں رہوں
واپس نہ جا وہاں کہ تیرے شہر میں منیر
جو جس جگہ پہ تھا وہ وہاں پر نہیں یہاں
کھلتا تھا کبھی جس میں تمنا کا شگوفہ
کھڑکی وہ بڑی دیر سے ویران پڑی ہے
وہ لوگ جو ہجرت کے دکھ جھیل رہے تھے جان و مال اور آبرو کی قربانیاں دے رہے تھے عزیز و اقارب سے دائمی جدائی کے کرب سے گزر رہے تھے ان کے دل کے نہاں خانوں میں یہ امید تھی کہ غلامی کی طویل ترین رات ختم ہونے کے بعد جب آزادی کا سورج طلوع ہوگا تو آزادی کی روشن صبحیں خوشبو سے ان کا دامن بھر دے گی مگر جب سیاسی رہنماؤں کے آپسی جھگڑے اقرباپروری بدعنوانی اخلاقی اقدار کی پامالی حقوق کا استحصال اور دیگر مسائل کا دور دورہ ہو گیا صبح آزادی شب غلامی سے زیادہ خوف اور تاریک گیئں ساری توقعات دم توڑ گئی اس عہد تاریخ سے جہاں بہت سے شعراء متاثر ہوئےوہاں منیر نیازی بھی اس لدوز تحریک عہد سے بری طرح متاثر ہوئے جس نے امید اور مایوسی خوشی اور غم اور دن اور رات کے فرق کو یکسر ختم کر کے رکھ دیا تھا تاحد نظر اندھیرے اور مایوسی کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو منیر نیازی کچھ یوں اظہار کرتے ہیں
سارے منظر ایک جیسے ساری باتیں ایک سی
سارے دن ہیں ایک سے اور ساری راتیں ایک سی
بے نتیجہ بے ثمر جنگ و جدل، سود و زیاں
ساری جیتں ایک جیسی ساری ماتیں ایک سی
کبھی کبھی ہو لناک تاریکہ انہیں اس استفسار پر مجبور کر دیتی ہے کہ
یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن ہے کیا چیز رات کیا ہے
اس طرح نظم جنگل میں زندگی میں وہ رات کے بھوکے شیروں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں
پراسرار بلاوں والا
سارا جنگل دشمن ہے
شام کی بارش ٹپ ٹپ
اور میرے گھر کا آنگن ہے
ہاتھ ایک ہتھیار نہیں ہے
باہر جاتے ڈرتا ہوں
رات کے بھوکے شیروں سے
بچنے کی کوشش کرتا ہوں
(جنگل میں زندگی )
مذکورہ مایوس کن تاریکی سے نجات پانے کے لیے منیر نیازی کو ایک ہی راستہ نظر آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ
آج کی رات بہت کالی ہے
سوچ کے دیپ جلا کے دیکھو
سائیں سائیں کرتے ہوئے سنسان شہر چار سو پھیلا اندھیرا عزیز و اقارب اور دوستوں سے بچھڑنے کا غم مایوسی اور ناامیدی اس عہد کے کم و بیش ہر شاعر کے ہاں یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے احمد ندیم قاسمی اپنی نظم کےآزادی بعد ایک بند میں کہتے ہیں کہ
ایک آفاق گیر سناٹا
زندگی زندگی پکارتا ہے
سٹپٹاتا ہے اپنے ہونٹوں سے
خون کی پپڑیاں اتارتا ہے
ناصر کاظمی کہتے ہیں کہ
بازار بند اور راستے سنسان بے چراغ
وہ رات کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
منیر نیازی لٹی محفلوں اور شہر کی ویرانی کا نوحہ کچھ یوں رقم کرتے ہیں کہ
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ایک آسیب لرزہ مکانوں میں ہے
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے
چار چپ چیزاں ہیں بحر و بر فلک اور کوہسار
دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے
ہجرت کے بعد کا ایک بڑا المیہ رہنماؤں کا رہبری سے کنارہ کش ہو کر رہزنی پر اترآنا تھا ہندوستانی رہزنوں سے بچ کر آنے والے کچلے ہوئے افراد کو سرزمین پاکستان میں بھی رہزن ہی ملے فرق صرف اتنا تھا کہ یہ رہزن رہبری کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے اور ذاتی مفادات کے حصول میں اندھے ہو کر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے دامن چھڑا رہے تھے منیر نیازی رہبروں کی اس منافقانہ روش پر کچھ یوں اظہار افسوس کرتے ہیں کہ
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
رہبر میرا بنا مگر کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے در بدر اس نے کیا
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں
دیکھے ہیں وہ نگر کہ ابھی تک ہوں خوف میں
وہ صورتیں ملی ہیں کہ ڈر جاۓ آدمی
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
رہبر کو ان کے حال کی ہو کس طرح خبر
لوگوں کے درمیاں وہ آکر نہیں رہا
رہبروں کے بھیس میں جب رہزن ملے تو ایسے میں اکیلے رہ جانے کا احساس شدت اختیار کرگیا منیر نیازی کسی ایسے سچے ساتھ کی تلاش میں کوشاں ہوئے جو تمام محرومیوں کا ازالہ کر سکے مگر اس دور منافقت میں ایسا کوئی شخص میسر نہ ہوا جو صحیح معنوں میں ساتھ نبھا سکتا جو زندگی کو زندگی بنا سکتا ایسے میں مایوسی اور تنہائی میں یکجا ہوکر منیر نیازی کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا
تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی
ان بستیوں میں ہم کو رفاقت نہیں ملی
وہ ایک مثالی انسان اور مثالی زندگی کے خواہشمند تھے مگر ان کی متوقع مثالیت کسی بھی دور میں حقیقت کا روپ دھار سکی وہ ہر زمانے میں یاسیت کا شکار رہے منیر نیازی کے اس رویہ کے حوالے سے انیس ناگی لکھتے ہیں کہ
وہ آج کی دنیا سے مطمئن نہیں ہے کہ اس میں آدمی ختم ہوگئی ہے اور انسان ضرورتوں کو پورا کرنے والے پر بن گیا ہے اس لیے وہ اندر سے ویران ہے
اپنوں سے بچھڑنے کا غم اور دوستوں کی جدائی کا صدمہ یہ وہ تو کہیں کہ جن کی تلافی کی صورت ممکن نہیں ہے اور یہ وہ آسانی ہے جس سے کم و بیش سب ہی جرت کرنے والے انسانوں کو سابقہ واسطہ پڑا یہی وجہ ہے کہ انیس سو سینتالیس کے بعد شعرا کے کھوئے ہوئے کی جستجو اور ماضی کے موسموں کی بازگشت واضح نظر آتی ہے یادوں کے عمل نے ہر زخم کو تازہ کر دیا گئے دنوں کے قیمتی لمحے بیت آئے ہوئے حسن ماضی محفلوں کی رونق کو اور دوستوں کے ساتھ بیتی شاموں اور برسوں میں بھی گہہگلو نے یادوں کے دریچوں سے جھنگ کر حال کے حال کر دیا اور ایسے میں بے یقینی اداسی تنہائی اور مایوسی کے مہیب سائے ساری کی ساری فضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ناصر کاظمی مذکورہ کیفیت کا کچھ یوں اظہار کرتے ہیں کہ
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
اسی طرح وہ اپنی مختلف نظموں میں گئے دنوں اور رفتہ گاؤں کی یاد کو دل سے لگائے ہوئے نظر آتے ہیں مثلا تنہائی، گوہر مراد ،راستے کی تھکن، ساتھیوں کی تلاش اور فریب وغیرہ
منیر نیازی کی شاعری دراصل سیدھے سچے جذبات اسی تجربات ماضی کی خوشگوار سپنوں ہے
سن اس شاعری میں باغاٹ جذبے اور بعض سیاسی تجربے سے بھی ہیں جدید اردو شاعری میں منیر کی دین کہا جاسکتا ہے
0 Comments