فارسی زبان میں قومی ترانہ اور دیگر مضحکہ خیز دعوے

 



فارسی زبان میں قومی ترانہ اور دیگر مضحکہ خیز دعوے


”پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے، صرف ایک لفظ اردو کا ہے۔“

”اچھا؟ وہ کون شودر لفظ ہے؟“

”'کا'۔ پاک سرزمین کا نظام؛ اس میں ”کا“ اردو زبان سے ہے۔


سوچے سمجھے بنا ایسی باتیں کرنے والوں کی کمی نہیں؛ اردو زبان گویا یتیم زبان ہے، کہ جو جس کے جی میں آئے وہ اس کے لیے کہ دے۔ ”اردو تو کوئی زبان ہی نہیں، یہ تو عربی، فارسی، سنسکرت اور کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے؛ اس کا تو نام بھی ترکی زبان مستعار ہے، اردو۔ اس کا مطلب 'لشکر' ہوتا ہے۔“ بس آپ یہ دعوے ہی نہ سنیں، بل کہ پرجوش عالم میں ایسے انکشافات کرتے کاشفین کا چہرہ تکا کیجیے، کہ وہ عالمی سازش کا سراغ لائے ہیں۔ سنانے والوں کی معلومات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائیے۔


جب کوئی یہ کہے کہ اردو زبان کئی زبانوں کا ملغوبہ ہے تو میں اطمینان سے سوال کرتا ہوں، وہ کون سے زبان ہے، جو آسمان سے اتری ہے؟ سازش کا پتا دینے والا بھونچکا رہ کے تکے جاتا ہے۔


ہم نے پرایمری کلاس کی (”پرایمری کلاس“ انگریزی نہیں، اردو ہے) اسلامیات میں پڑھا تھا کہ ”عربی؛ عبرانی اور سریانی زبان کا مجموعہ ہے۔ لیکن کبھی کسی عربی کو افسوس کا اظہار کرتے نہیں پایا کہ ”عربی تو زبان ہی نہیں، یہ تو عبرانی اور سریانی کا ملغوبہ ہے۔“


دنیا کی تمام زبانیں ایک سے زاید زبانوں کے ملاپ سے بنتی آئیں ہیں اور امید ہے ایسے ہی بنتی چلی جائیں گی۔ برصغیر پاک و ہند میں کئی اقوام بستی ہیں۔ تجارت کے غرض سے آنے والے غیر ملکی اور بدیسی حملہ آور اپنی تہذیب ہی نہیں زبان بھی ہم راہ لائے۔ ان کے ہم راہیوں میں مترجم بھی ہوں گے، جو مقامیوں سے بات چیت کرتے وسیلہ بنتے تھے؛ تبلیغ کرنے والوں کو مقامیوں ہی کی زبان کو اپنانا پڑا۔ مرور ایام نے ایک نئی زبان کو جنم دے دیا، جس کے لہجے جدا جدا ہوں گے، ہیں۔ انگریز سرکار آئی تو انھیں اپنے افسروں کو ایک ایسی زبان سکھانا تھی، جو فصحیح ہو نہ ہو، بلیغ ہو۔ ابلاغ بنیادی ضرورت تھا۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام عمل میں لایا گیا، انگریز کی نظر میں ”اردو“ وہ زبان ٹھیری، جو ہندستان کے کونے کونے میں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بولی پہلے سے موجود تھی، اسے بولنے والے کسی اصول یا گرایمر سیکھنے کے محتاج نہ تھے، جیسا کہ اہل زبان ان کا محتاج نہیں ہوتا۔ زبان سیکھنے کے لیے گرایمر سکیھنا پڑتی ہے۔ اس کے اصول اس کی گرایمر ترتیب دینے کے لیے اس زبان کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، تا کہ انگریز افسروں کو اس زبان کی تربیت دی جا سکے۔ ہر قوم کا یہ احساس تھا اور ہے کہ وہی اعلا قوم ہے اسی کی تہذیب سب تہذیبوں سے افضل ہے، اور اس کی زبان بلیغ و فصیح ہے۔ ایسے میں انگریز نے اردو کو کیوں اہمیت دی؛ اپنی قوم کو برتر سمجھنے والوں کا یہ دکھ گیا نہیں۔ مغل دربار کی زبان فارسی تھی، انگریز سرکار کی دفتری زبان انگریزی۔ ”اردو“ جنتا کی زبان تھی، ایسی جنتا جسے اپنے جیسے گوشت پوست کے دوسرے انسان سے ابلاغ کے لیے اس کی ضرورت پڑتی تھی، جو دوسری قوم سے ہوتا؛ جنتا تو جنتا ہوتی ہے، وہ کب افضل ہوئی ہے۔ جنتا کو افضل بننے کے لیے پہلے پہل فارسی سیکھنا پڑتی تھی، پھر انگریزی کی محتاج ہوئی۔ اردو نہ اشرافیہ کہ زبان تھی نہ ہے۔ اردو کے خلاف بغض تھا تو سیاسی تھا، اردو کے خلاف بغض ہے تو سیاسی ہے۔


جناح نے اردو کی وکالت کی تو اسی لیے کی تھی کہ یہ واحد زبان ہے، جو پاکستانی اقوام کی نمایندگی کرتی ہے؛ ورنہ جناح کو اردو کی طرف داری کی کیا پڑی تھی، وہ تو اردو لکھنا بولنا جانتے ہی نہ تھے۔ انھیں انگریزی کی وکالت کرنا چاہیے تھی۔


طوالت کی گنجایش ہوتی تو ابھی اور کہتا؛ نکتے پر آتا ہوں۔  پاکستان کے قومی ترانے میں ”کا“ نہ ہوتا، تو یہ مکمل فارسی زبان میں ہے۔ یہ دعوا اتنی بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے، کہ کیا کہیے۔ یہ مضمون اردو میں ہے، اس میں کوئی لفظ غیر اردو نہیں۔ ان الفاظ کو اردو میں برتا جاتا ہے، یہ اردو ہیں۔ یہ اردو ہی کے ساتھ نہیں سب زبانوں کے ساتھ ہے، کہ وہ دیگر زبانوں کے الفاظ لیتی رہتی ہیں، وہ ایسا نہ کریں تو متروک ہو جائیں۔ ”مچان، چیتا، کف، بازار، جنگل، پاجامہ، اور ڈھیروں الفاظ ہیں جو انگریزی نے ہم سے مستعار لیے۔ قومی ترانہ جسے فارسی زبان میں کہا جا رہا ہے، اس پر ایک نظر کرتے ہیں۔


پاک سرزمین شاد باد كشورِ حسين شاد باد

تو نشانِ عزمِ عالی شان ارضِ پاکستان!‏

مرکزِ یقین شاد باد

پاک سرزمین کا نظام قوّتِ اخوّتِ عوام

قوم، ملک، سلطنت پایندہ تابندہ باد!‏

شاد باد منزلِ مراد

پرچمِ ستارہ و ہلال رہبرِ ترقّی و کمال

ترجمانِ ماضی، شانِ حال جانِ استقبال!‏

سایۂ خدائے ذوالجلال


مدعی کا دعوا مان کر چلتے ہیں کہ یہ فارسی زبان ہے، ما سوائے ”کا“ کے، تو ”یقین، قوت، اخوت، عوام، ملک، منزل، مراد، سلطنت، ہلال، ترقی، کمال، ترجمان، ماضی، شان، حال، استقبال، ذوالجلال' کا کیا کیجیے، کہ یہ تو عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ ہم یہ دعوا کیوں نہیں کر دیتے کہ قومی ترانہ عربی فارسی کا ملغوبہ ہے ایک لفظ اردو ہے۔ میں ایسوں کی آسانی کے لیے یہ کیوں نہ کہ دوں کہ اس میں ایک بھی لفظ اردو کا نہیں؛ ”کا“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے! اوپر جن الفاظ کو میں نے عربی کہا ہے، انھیں فارسی زبان اپنا چکی ہے۔ جیسا کہ ہوتا ہے ہر زبان پر کسی دوسری زبان کے اثرات ہوتے ہیں۔ لیکن مذکورہ الفاظ اب فارسی زبان کے الفاظ ہیں؛ کوئی فارسی دان یہ نہیں کہتا کہ یہ الفاظ فارسی کے نہیں ہیں، یہ تو عربی ہیں۔ اسی لیے ان پر فارسی طرز پر اضافت لگا کے مرکب کرتے ہیں، نا کہ عربی انداز میں ”ال“ سے تراکیب بناتے ہوں۔ ہاں! جب لغت بنائی جائے، تو یہ واضح کیا جاتا ہے، کہ یہ لفظ اس زبان میں کس زبان سے در آیا۔ کیا قومی ترانے میں استعمال کیے گئے الفاظ ایسے ہی ہیں جو اردو زبان کی بول چال میں نہیں آتے؟ یہ اردو زبان کے الفاظ ہیں۔ ان پر فارسی طریق پر اضافت لگی ہے، جو اردو گرایمر کے حساب سے مباح ہے۔

لسانی ماہرین کے مطابق 

لسان کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اردو زبان میں لگ بھگ تیس فی صد الفاظ عربی فارسی یا غیر زبان سے ہیں؛ باقی اسی سرزمین کی (ہندی) زبانوں کے ہیں۔ ہند کی تمام نہیں تو بیش تر زبانوں میں عربی فارسی سنسکرت کے الفاظ شامل ہیں۔ مختصرا یہ کہ ”پنج آبی“ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ آپ اپنی اپنی مادری زبان پر غور کیجیے آپ کو عربی فارسی کے الفاظ جا بجا دکھائی دیں گے۔ یہ ہے کہ اردو کے مقابلے میں عربی فارسی کے الفاظ قدرے کم ہوں گے۔ ایک دوسرے کی زبانوں میں جو مشترک الفاظ ہیں، وہ کیا ہیں؟ پرتگالی، انگریزی، ترکی، سنسکرت، عربی، فارسی! اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ہند کی تمام زبانوں کی ماں سنسکرت ہے۔ یہ وہی سنسکرت ہے جس کے الفاظ فارسی زبان میں شامل ہیں۔

قومی ترانے کی دھن

چلتے چلتے آپ کو بتاتا چلوں کہ قومی ترانے کی دھن میں مغربی ہے، اس میں استعمال ہوئے موسیقی کے آلات ”سیکسو فون، ٹرمپٹ، ہارن، سلایڈ، ٹرمبون، بیس ٹرمبون، یو فونیم، بے سون، پکولو اور دیگر آلات بھی مغربی ہیں۔ نہ اس میں ستار کا استعمال ہوا، نہ اک تارا، نہ اور کوئی مقامی ساز۔ احساس محرومی کے مارے ہووں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر تو نہیں۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

Post a Comment

0 Comments