پروین شاکر کی شاعری میں ذاتی زندگی کا عکس||پروین شاکر کی شاعری میں جنس بطور موضوع||Parveen Shakir Shayari||



Parveen Shakir

PERVEEN SHAKIR

پروین شاکر کی شاعری     

 ازدواجی زندگی میں ناکامی کا دکھ اور پھر معاشرے کی طرف سے اس ناکامی کے محرکات وجوہات کے بارے میں اٹھائے گئے سوالات سے اس طرح سے خوف ہے جیسے معاشرے کی ان پڑھ جاھل اور گنوار عورت ہو اسی خوف کا اظہار انہوں نے بیشتر جگہ پر اپنی شاعری میں کیا ہے

کوئی سوال جو پوچھے تو کیا کہوں اس سے
 بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا

میں تھک گئی ہوں اندر کی خانہ جنگی سے
 بدن کو سامرا آنکھوں کو معقصم کر لوں

 جیون ساتھی کی بے وفائی اور ناروا سلوک کے باوجود بھی ان کی شاعری میں موجود عورت وفا کی دیوی ہی بنی رہتی ہے اور اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کو مقدر کا لکھا جانتی ہے اور یہی مالا جہتی ہے کہ

 تیرا پہلو تیرے دل کی طرح آباد رہے 
تجھ پر گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی

تیرے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے
 یہ اعتراف بھی شامل میرے گناہ میں ہے

سکھ تیری میراث تھے تجھ کو ملے
 دکھ ہمارے تھے مقدر ہو گئے

جنس کے موضوع پر مرد تخلیق کار کی نسبت عورت نے بہت بعد میں لکھنا شروع کیا جنسی عمل مرد اور عورت دونوں کے لئے الگ احساس کا حامل ہے کیونکہ ان دونوں میں ایک فاعل ہے اور دوسرا مفعول رکھے ایک غالب ہے اور دوسرا مغلوب پروین کے ہاں عورت بطور ایک فرد اپنے جسمانی تقاضوں کے اطراف سمیت موجود ہیں جسم کی چاہ میں اور آتش لمس کی خواہش میں اس کی رجحان رکھتی ہے جو زندگی کا بے حد قدیم صنم اگر محبت میں تشکیل پائے تو وہ عورت کے جسم کی بھرپور کوشش کر اسے گلابی رنگ عطا کرتا ہے نظم مثال اس عمل میں عورت کی اس مکمل سپردگی کا نظارہ ہے جس نے اس عمل کی قدامت اور جڑیں حوا اور آدم کے رشتے میں تلاش کرنے کی طرف توجہ مبذول کرادی ہے 

خمار لذت سے ایک پل کو 

جو آنکھیں چونکیں
 
تو نیم خوابیدہ سرگوشی میں

 خدائے برتر کے قہر سے آدم و حوا بہشت سے جب بھی نکلے ہوں گے 

سپردگی کی اسی حسین انتہا پہ ہوں گے

 اسی طرح 

ہم بدن اور ہم خواب ہو ہم تمنا

Post a Comment

0 Comments