داستان نگاری |
داستان کی تعریف
ادبیات میں اداستان کی روایت ایک پرانی اور قدیم روایت ہے جو مختلف معاشروں اور مختلف زبانوں میں موجود ہے۔ داستان کی کہانیوں میں عموماً غمگین اور ملال کا موضوع ہوتا ہے جو قارئین کے دلوں کو چھو جاتا ہے۔ اس روایت کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عموماً انسانی جدوجہد، زندگی کی مشکلات اور انسانی خامیوں پر زور دیا جاتا ہے۔داستان کی کہانیوں میں عموماً محبت، دوستی، خیانت، اور انسانی خوبیوں کی قدرتی خوبصورتی کو بیان کیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں میں مختلف کردار ہوتے ہیں جو زندگی کی مختلف مواقع اور امور کا سامنا کرتے ہیں۔
فن داستان کا آغاز و ارتقا
یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کے پاس وقت گزاری، اپنی ذہنی حرارت و تھکان کو دور کرنے کے ذرائع بہت محدود تھے۔ نہ ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں اور نہ ہی شعر و شاعری کی مجلسیں منعقد کی جاتی تھیں ۔دن بھر کام کرکے شام میں جب سب اکٹھا ہوتے تو ان میں کا ایک شخص جو عموماً بڑی عمر کا ہوتا تھا ، ان کی ذہنی تکان کو دور کرنے کے غرض سے قصے اور کہانیاں سناتا۔
یہ قصے کٸی موقع پر مختصر ہوتے تو بعض دفعہ کافی راتوں تک اسکا سلسلہ چلتا رہتا۔ ان قصوں کے موضوعات کا مرکزی پواٸنٹ عام طور پر جن، پریاں، بادشاہ،دیو،جادو وغیرہ ہی ہوا کرتے تھے۔ہر شب قصہ سنانے والےاپنے اپنے قصے کو ایسی جگہ پہ مکمل کرتے کہ اگلے دن تمام سننے والےبڑی بے صبری اور بے چینی سے آگے کے واقعات سننے کا شوق دل میں لیے ھو ۓ بیٹھے ہوہتے ۔
قصہ گوئی کی تاریخ پر غور کیا جائے تو یہ اتنی ہی پرانی معلوم ہوتی ہے جتنی کہ انسانن کےدنیا میں آنے کی تاریخ۔یعنی اس روئے زمیں پر جب سے انسانوں نے بود باش اختیار کیا یہ فن کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں” حکمائے یونان کے بقول قصہ گوئی کا فن شاعری اور موسیقی کی دیویوں سے بھی قدیم تر ہے۔ ممکن ہے بعض لوک کہانیاں پانچ ، دس ہزار سال بیشتر وجود میں آچکی ہوں” قصہ گوئی اور داستان کا فن اردو زبان میں عربی اور فارسی کے توسط سے پہنچا ہے۔ عربی کے مشہور افسانے الف لیلہ، السندباد، حاتم طائی کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر گیان چند اپنی بات کو ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں” کہ عرب میں داستان گوئی باضابطہ طور پر ایک فن تھا جو عہد جاہلیت میں اپنی بلندیوں پر تھا۔ چاندنی رات میں کھانا کھانے کے بعد تمام سامعین ریت پر اکٹھے ہو جاتے تھے،قصہ گو قصے کی شروعات کرتا تھا بدلے میں اسے کھجوریں دی جاتی تھیں”(اردو کی نثری داستانیں،ص:41)یہ عرب سے ہوتا ہوا ایران پہنچا وہاں اس نے فارسی کا لبادہ اوڑھ لیا پھر ایرانی تجار اور سیاحوں کے ذریعہ اس نے ہند کی سرزمین پہ قدم رکھا ۔اردو ادب میں داستان گوئی کا جو آغاز ہےوہ ملا وجہی کی "سب رس” 1635ء کی داستان سے ہوتا ہے،لیکن ملا وجہی کی داستان ایک تمثیلی داستان ہے اور اس کی عبارت مشکل اور پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے داستان کا اصل روح نہیں پہچانی جا سکتی ۔باقاعدہ داستان گوئی جس میں داستان کے مقاصد کا حصول شامل کیا گیا ہو انیسوی صدی کے ابتداء سے شروع ہوتی ہے۔ پہلے عطاحسین تحسین نے "قصہ چہار درویش” کا ترجمہ کیا۔ پھر میر امن نے فورٹ ولیم کالج کے تحت ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی سرپرستی میں اسی قصہ کا ترجمہ "باغ و بہار” کے نام سے سادہ اور عام فہم زبان میں 1803ء تحریر کیا ۔ فورٹ ولیم کالج کے تحت کئی داستانیں تحریر کی گئیں جن چند بہت مقبول ہوئیں جو حسب ذیل ہیں:
باغ و بہار: میر امن۔
آرائش محفل، طوطا کہانی: حیدر بخش حیدری۔
داستانِ امیر حمزہ: خلیل علی خاں ولا۔
نثرِ بے نظیر: بہادر علی حسینی۔
بیتال پچیسی: للو لال جی، مظہر علی ولا۔
سنگھاسن بتیسی: ، للو لال کوی۔ کاظم علی جواں
فورٹ ولیم کالج کے انیسویں صدی کے آخر تک مصنفین نے انفرادی طور پر کافی داستانیں تحریر کیں جن میں چند مشہور داستانیں درج ذیل ہیں:
نورتن: میر محمد بخش مہجور۔
فسانۂ عجائب: رجب علی بیگ سرور۔
گل صنوبر: نیم چند کھتری۔
الف لیلہ کی داستان، بوستانِ خیال داستان، طلسم ہوش ربا،سروش سخن،طلسم حیرت اور ان شاء اللہ خاں انشاء کی رانی کیتکی کی کہانی(1803ء شمالی ہند کی سب سے پہلی داستان) وغیرہ شامل ہیں۔
آہستہ آہستہ لوگوں کی مشغولیات میں ہر چند اضافہ ہونے لگا ، روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس قصہ گوئی ، داستان سننے اور کہنے کا وقت نہیں رہا۔ دوسرا پھر اس کی طوالت نے لوگوں کو رفتہ رفتہ اس سے دور کر دیا اور اس فن کے زوال کے بعد افسانے ،ناول وغیرہ فنون وجود میں آئے۔
داستان کی روایت کا اصل مقصد قارئین کو انسانیت کی حقیقت اور زندگی کی حقیقت سمجھانا ہوتا ہے۔ اس روایت میں کہانی کے ذریعے انسانیت کے عمقی پہلو، معنویت اورحسرت کو پیش کیا جاتا ہے۔داستان کی روایت ایک اہم اور قیمتی ادبی روایت ہے جو ہمیں زندگی کی اہمیت، انسانی رشتے اور مختلف مواقع سمجھاتی ہے۔داستان کا آغاز ایک مثالی اور پرانی روایت ہے، جو انسانیت کے آغاز سے ہی شروع ہوئی۔ قدیم زمانوں میں لوگ اپنی تجربات، خواب اور خیالات کو داستانوں کی شکل میں بیان کرتے رہے ہیں۔ ان داستانوں میں انسانی زندگی کے مختلف پہلو، معنوی امور اور حقائق کو بیان کیا جاتا رہا ہے۔داستان کا ارتقا مختلف فنون کی ترقی اور تجدید کے ساتھ ہوا۔ معاصر داستان نگاری نے داستانوں کو نئی شکل دی ہے، جس میں موضوعات، کردار، اور روایتی انداز میں تبدیلی آئی ہے۔ اب داستانوں میں معاشرتی، سماجی، اور روحانی موضوعات پر زور دیا جاتا ہے، جو قارئین کے لئے سوچنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔داستان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہمیں مختلف معاشرتی، فکری، اور معنوی امور پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہمیں انسانیت کے اصول، اخلاقیات، اور زندگی کی حقیقت سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
بر صغیر پاک و ہند میں داستان کا آغاز بہت پرانے دوروں سے ہوا ہے۔ اس میں قدیم زمانوں کے شاعران، لوک کہانیوں، اور دینی روایات کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ اس دور میں لوگ اپنی تجربات اور ان کے پیچھے چھپی حقیقت کو داستانوں کی شکل میں بیان کرتے رہے ہیں۔بر صغیر کی تاریخ میں مختلف حکومتوں، مذاہب، اور فرقہ واریتوں کا اثر رہا ہے، جس نے داستانوں کی ترقی اور تعمیر پر اثر ڈالا۔ مغولیہ کے حکمرانوں کے دور میں اردو زبان کی ترویج کا کردار بھی اہم رہا ہے، جس نے داستانوں کی ترقی کو بڑھاوا دیا۔
یہاں تک کہ اردو زبان کی اپنی قصہ نگاری روایت بھی رہی ہے، جو مختلف موضوعات پر مبنی داستانوں کو پیدا کرتی رہی ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں داستانوں کا آغاز بہت ہی قدیم دوروں سے ہوا ہے اور یہ ایک اہم اور قیمتی حصہ اردو ادب کا بنا رہا ہے۔بر صغیر پاک و ہند میں داستان کا آغاز بہت پرانی تاریخ سے ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی لوگوں نے اپنی تجربات، خواب اور خیالات کو داستانوں کی شکل میں بیان کرنے کی روایت بنائی۔ ان داستانوں کی شروعات انسانیت کے ابتدائی دور میں ہوئی، جب لوگ بھیڑیے کے زندگی کے واقعات، طبیعت کے قدرتی عملوں، اور معنوی فہم کو داستانوں کی شکل میں بیان کرتے رہے ہیں۔بر صغیر پاک و ہند کے علاقے میں بھی اس دور کے داستانوں کی تقلید ہوئی، جو عام طور پر مندرجہ ذیل موضوعات پر مبنی تھیں
- دھرم، اخلاق، اور فرد کی مسئلے ۔۔۔۔۔حیوانات، پرندے، اور پریوں کے قصے ۔۔۔۔محبت، دوستی، اور خیانت کے کسان
یہ داستانوں نے اس علاقے کی روایتوں، زبان، اور فرہنگ کو شکل دی، جو آج بھی اس علاقے کے افراد کی زندگی اور سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔
داستان کے اجزا ئےترکیبی
تواترِ مہمات، پیچیدگی، شش وپنج، استعجاب و اضطراب اور اطناب کو داستان کے اجزائے ترکیبی قرار دیا جا سکتا ہے۔
خواجہ امان کی بیان کردہ خصوصیات کے حوالے سے داستان کا طویل ہونا اس کی صفت شمار کی جاتی ہے چاھے یہ طوالت بے جا طور پرہی کیوں نہ ہو۔ بس اس بات کا خیال رکھنا قدرے ضروری شمار کیا جاتا ہے کہ یہ طوالت واقعات کے بار بار بیان کرنے سے پیدا نہ کیا جائے۔ داستان کو طول دینے کی خاطر داستان گو اور قصہ گو مصنفین نے ایک قصے کے اندر مزید ایک اور قصہ کی تکنیک کا استعمال کیا اور اس کی بہترین مثال ابن نشاطی کی پھول بن اور باغ و بہار میں ملتی ہے۔ ایک اچھے اور ماہر داستان گو کی خوبی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا تا ہےکہ وہ داستان کا اختتام کس جگہ پر کرتا ہے اور پھر اگلے دن کہاں سے آغاز کرتا ہے۔ کتنی دیر داستان کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر اسے روک س کر شاٸقین کی توجہ مبزول کرا سکتا ہے۔
مسعود حسین رضوی نے داستان کو نقطۂ عروج پر پہنچا کر روکنے کی بہترین مثال تحریر کی ہے لکھتے ہیں:
ایک دفعہ دو بہت ھی ماہر فن داستان گویوں میں مقابلہ ہوا کہ کون کتنی دیر یا کتنے دن تک داستان کو ایک جگہ روک سکتا ہے۔ ایک داستان گو نے قصے کو نقطۂ عروج پر اس طرح سے پہنچا دیا کہ عاشق معشوق کے پاس آ گیا ہے ، دونوں کی ملاقات کے درمیان محض ایک پردہ حائل ہے، جوں ہی پردہ ہٹ جاے گا دونوں کا فراق وصل میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس طرح کے مقام پر لا کر داستان گو داستان کو ٹھہرا دیتا ہے۔ اپنی وسیع معلومات اور طاقت لسانی کا اظہار کرتا ہے۔ عاشق معشوق کے جذبات اور حائل ہونے والے حجاب کا عالمانہ بیان کرتا ہے اور اس میں کئی دن گزار دیتا ہے۔ ہر روز سامعین اپنے دل میں یہ خواہش لیے آتے ہیں کہ آج پردہ ضرور ہٹے گا، اب کچھ بیان کرنے کو باقی نہیں رہا۔ لیکن رات کو اس حال میں واپس چلے جاتے ہیں کہ بس پردہ اٹھنے میں تھوڑی کسر باقی رہ گٸی تھی اس طرح اس داستان گو نے ایک ہفتے سے زیادہ داستان کو روکے رکھا ۔
ایک کامیاب داستان نگارھونے یا بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زبان صاف اور سلیس ہونی چاھیے تاکہ سننے والے کے کان پہ بھاری نہ گزرے ۔ الفاظ کا انتخاب سامع کی توجہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائے، کیونکہ الفاظ اظہار خیال کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر الفاظ کا انتخاب و چناؤ مناسب طریقے پر نہ کیا جائے تو دلچسپ سے دلچسپ تر مضامین بھی بد مزہ معلوم ہوتے ہیں۔داستان کی عبارت عام فہم ہونی چاہیے ، تاکہ ہر خاص و عام بآسانی سمجھ سکے۔ لفاظی اور مشکل تراکیب کا استعمال داستان کیلئے عیب گردانا جاتا ہے۔
داستان کے ابتداء میں بطور تمہید تاریخی واقعات بھی تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انداز ایسا ہو کہ اصل واقعہ اور فرضی واقعے میں تمیز کرنا دشوار ہو جائے ۔سامع کو فرضی واقعہ بھی حقیقی معلوم ہو۔ ایسی باتیں بیان کی جائے جو ممکن الوجود ہو۔ جب سامع کا یقین اور اعتماد حاصل ہوجائے تو خیالی اور افسانوی دنیا میں قدم رکھا جائے۔
**موضوع**
**کردار**
. **ماحول**
. **پلا ٹ**
**اوضاع**
**موقع**
**اختتام**
داستان کی خصوصیت
0 Comments