شعری اصطلا حات
ہزلیہ شا عری:-(Nonsense
poetry)
خا ندا ن مطا ئبا
ت سے متعلق صنف شا
عری ہے
نظم میں فحش گو ئی
کر نا ہز ل
کہلا تا ہے ۔
ہز لیہ شا
عری میں شا
عر کا لا
شعو ر سا
منے آ جا
تا ہے اور
شعو ر پس
پردہ چلا جا
تا ہے ۔
کم و بیش
ہر شا عر
نجی محفل میں تنہا ئی میں
(off the
record)تھو ڑا بہت
ہزل گو ئی کر
تا ہے
ظا ہر ہے کہ یہ
الفا ظ قرطا
س وکتاب کی زینت نہیں بنتے ۔اور محض
سینہ بہ سینہ رہتے ہیں
چنا چہ ایسی شا
عری "حا مد کی
پگڑی محمو د کے سر " وا
لا معا ملہ
ہو تی ہے
۔ہزل کے بعض
شعرو ں میں تخلیقیت
کا وہ
جو ہر ہو
تا ہے کہ
ذو ق سلیم
عش عش کر اٹھتا
ہے ۔
نظیر اکبر آ
با دی ،چرکیں ،جعفر ز ٹلی اور
جو ش کی ہزل
گو ئی مشہو ر
ہے ۔
واسوخت:-
مو
ضو ع
کے اعتبا ر سے
واسو خت ایسی
نظم کو کہتے
ہیں جس میں
محبو ب کے ظلم
وستم بے التفا ئی
اور بے اعتنا
ئی سے تنگ
آ کر شا عر رد عمل
کے طور پر
"یا رے دیگر
" کی تعریف و
تو صیف اور حسن جما
ل کی مدح
سرا ئی کرتے
ہو ئے اس
سے دل لگا
نے کی بات
کرتا ہے ۔یا
یو ں کہیے
کہ محبو ب کو
جلی کٹی سنا
کر کسی اور
سے دل لگا
نے کی دھمکی دیتا
ہے اور وا سو خت
کی یہ صنف
فا رسی سے
اردو میں
آ ئی ہے
فارسی میں اس
صنف کو مرو ج
کر نے وا
لا شا عر "وحشی
یزدی "ہے ۔ اردو کی شاعری
اصنا ف (ڈاکٹر خو ا
جہ اکرام )
تو ارد:-
ایسے کلا
م یا شعر
کو توار دکہا
جا تا ہے
جو دو شا عرو
ں کے یہا ں مضمو
ن لفظیا ت اور ترا کیب
وغیرہ کے اعتبا ر سے یکسا
ں ہو ں
لیکن اس کے لیے
یہ علم ہو
نا ضرو ری
ہے کہ ان
دو نو ں
شعرا ء نے
ایک دوسرے کے
کلا م سے
استفا دہ نہیں
کیا ہے ۔یا
جا ن بو
جھ کر شعر
کو اپنا نے
کی کو شش نہیں کی
ورنہ یہی توار د سر قہ ہو
جا تا ہے
۔یعنی تو ارد ایسا
کلا م ہے
جو دو شعر
ا کے یہا
ں طبع زاد
اور اخترا عی
حیثیت رکھتا ہے ۔
تر قیمہ نگا ری :-
ترقیمہ کو
انگریزی میں) (Colophonکہا جا تا ہے بعض
اس کے لیے
انجا مہ یا
پا یا نہ
کا لفظ استعما ل
کرتے ہیں مگر اردو
میں زیا دہ تر
ترقیمہ ہی استعما
ل کیا جا
تا ہے ۔ترقیمہ
سے مرا د
وہ عبا رت
جو کہ قلمی
نسخہ لکھنے وا لا
قلمی نسخہ کے
اختتا م کے بعد
اس نسخہ کے متعلق
مکمل ہو نے
کے با رے
میں کچھ نہ کچھ
تحریر کر تا ہے
اس میں کا
تب کا نا
م ،لکھا ئی
یا کتا بت کی
تا ریخ
وغیرہ جیسی معلو
ما ت لکھی
جا تی ہیں
جس سے پتہ
چلتا ہے کہ اسے
کس نے کس
دن مکمل کیا ۔
امیجری:-
کسی امیج
کو زبا ن
دینا اس میں
شا عر یا
ادیب الفا ظ
کے ذریعے وہ تصویریں
پیش کر تا
ہے جو تہ در تہ
کیفیا ت کی شکل میں
اس کے ذہنی تجربو
ں میں آ تی ہے
اور خا
رجی دنیا میں
اس کا وجو د نہیں
رہتا ۔
خمریا ت :-
یہ بنیا دی طور
پر شا عری کی اصطلا
ح ہے ۔ایسی شا عری
جس میں شرا ب
اور متعلقا ت شراب
کا بکثرت
ذکر ہو اسے
خمریا ت کہتے ہیں ۔
داخلیت:-
ادب میں دا خلیت
سے مرا د یہ
ہے کہ شا عر اپنے
قلبی واردات اپنے نجی جزیا ت
واحسا سات میں ہی اپنی
تخلیقی زندگی کزارتا ہے ۔
خا رجیت:-
یہ تنقید شعر کی
اصطلا ح ہے جو خا
رجی واردات لو ا
ز ما ت
اور متعلقا ت
میں رہ کر شا
عری کرے
وہ خا رجیت پسند ہو
تا ہے خارجیت پسند
شا عر زندگی
کی بیرونی سطح
دیکھتا ہے ۔
ریختی:-
ایسی نظم جو
عورتو ں کے
با رے میں
عورتو ں کیطرف
سے لکھی جا
ئے ۔
شہر آشو ب:-
وہ نظم جس
میں کسی ملک
شہر یا معاشرے
کے اقتصا دی
سیا سی یا
معا شرتی دیو الیہ پن
مجلسی زندگی کے پہلو ؤ
ں کا نقشہ طنزیہ
اندا ز میں پیش
کیا جا ئے ۔
دبستا ن:-
جب بہت سے ادیب
اور شعراء ایک
مخصو ص علا قے
اور زما
نے کی طرز بو دو
با ش اور سما جی
اقدار سے متا
ثر ہو کر
ادب میں ایک
ہی طرز فکر اور
اندا ز نظر اپنا
تے ہیں تو اسے دبستا
ن کہتے ہیں جیسے دبستا ن دہلی وغیرہ
رجا عیت:-
ادبی اصطلا ت کے
طرف طور پر آ رزو
مندی زندگی سے
محبت اور پر امید لہجہ
اختیا ر کر نا
۔
آورد :-
جب شاعر ارادی طور پر فکر و سخن میں بیٹھے اور شعر کہنےکے
بعد اس کی لفظ و بیان اور ترتیب و تنظیم پر غور و غوز کرے اور بہتر پیرائیہ میں
ڈھالنے کی کوشش کرے ۔
تغزل:-
یہ ایک شعری اصطلاح ہے۔ تغزل اس کیفیت کا نام ہے۔ جو شاعری
اور اثر اور حسن و درد پیدا کرتی ہے۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے۔ ہم
کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے۔
سہل تمنع:-
ایسا شعر جو اتنے آسان لفظوں میں ادا ہو جا ئےجس کے بعد
مزید سلاست کی گنجائش نہ رہے۔
؎ تم میرے پاس ہوتے
ہو گویا جب
کوئی دوسرا نہیں ہوتا
رعایت لفظی:-
رایت لفظی شعری و نثری اصطلاح سے لفظوں کی مناسبت سے ایک
ایسی دلچسپ اور مضحکہ خیز صورتحال کو سطح پر لانا جو پہلے نظروں سے غائب تھی مثلا
اے بی اور بی اے میں تجینسی ربط ہے۔
رمزو ایمائیت :-
رمزو ایمائیت سے مراد کسی پوشیدہ بات کا اشارہ میں بیان
کرنا ہے۔
تلمیع:-
تلمیع کی اصطلاح علم بدیع
کے حصے میں آئی ہے۔ کلام میں کوئی ایسا لفظ یا مرکب استعمال کرنا جو کسی
تاریخی مذہبی یا معاشرتی واقع یا کہانی کی طرف اشارہ کرے تلمیع کہلاتی ہے۔
تغریظ:-
کسی ادب پارے کے بارے میں تبصرہ کرنا – عکاظ کے مقام پر ایک
میلا لگتا ہے۔ جہاں ایک شعری نشست منقعد ہوتی ہے۔ صدر محفل کسی ایک فیصدے کو دوسرے پر برتری دے کر اسکی خوبیوں ارو
محاسن پر ایک بلیغ تقریر کرتا ہے۔ اسے تقریظ کہتے ہیں۔
تضاد :-
یہ ایک شعری صفت ہے۔ جب کلام میں ایسے الفاظ لائے جائیں جو
معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ضد ہوں صفت
تضاد کہلاتی ہے۔
تنقید :-
کسی فن پارے کے محاسن کو معیارات فن کے مطابق پرکھنا
جانچ پڑتال کرنا اور اندرونی
محاسبہ جمال کی مدد سے اسکی قدر و قیمت کا تعین کرنا تنقید کہلاتا ہے۔
تر فع:-
تنقید کی عظیم اور قدیم اصلاح ہے جو دوسری صدی عیسوی سے رائج ہے ترفع کسی فن
پارے کی وہ خوبی ہے جس کے باعث اس کا
اسلوب عام سطح سے بلند ہو کر خاص امتیاز کا حامل ہے جاتا ہے۔
تصرف:-
یہ عمومی طور پر شعری اصطلاح ہے جس سے دخل دینا اختار قبضہ وغیرہ مراد ہے۔ کسی شاعر یا نثر
نگار کے کلام میں کچھ ردوبدل کر کے ایک نئی معنوی کیفیت پیدا کرنا تصرف کہلاتا ہے۔
تصوف:-
یہ روحانیت کی اصطلاح ہے۔ فرد کے روحانی تجربے کو تصوف کہتے
ہیں ۔ تصوف کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ صاحب حال کے تجربے میں آتا ہے یہ فرد کی
مکمل کی مکمل تنہائی کا تجربہ ہے جو ناقب بیان ہے یعنی اس تجربے کا ابلاغ نہیں ہو
سکتا کیونکہ ابلاغ عمرانی ہے۔
تحریف ( Perody) :-
پیروڈی کا لفظ یونانی الاصل ہے اردو میں اس کیلیے تحریف کی
اصطلاح رائج ہے ۔ کسی شاعر کے سنجیدہ
کلام کو معمولی ردوبدل سے مضحکہ خیز بنا دینا یا کسی سنجیدہ کلام کی اس طرح بقل
اتارنا کہ وہ مضحک بن جائے۔
تجنیس :-
یہ ایک صفت شاعری ہے اس سے مراد ہم جنس ہونا اور ہم صوتیت
ہے ۔ کلام میں دو ایسے الفاظ استعمال کرنا جو تلفظ یا املا یا دونوں میں مشابہت
رکھتے ہوں لیکن معنوں میں اختلاف ہو تجنیس
کہلاتا ہے۔
تجسیم :-
غیر مرئی حقائق جبلات یا عادات وغیرہ کو حرکی مادی جسم میں
ڈھال کر پیش کرنا تجسیم کہلاتا ہے۔
تسوید:-
کسی مقابلے کا پہلا مسودہ تیار کرنا تسوید کہلاتا ہے ۔
مبیضہ :-
کسی مخطوطے کا کانٹ
چھانٹ کے بعد اس کی حتمی شکل دینا ۔
تصحیف :-
نقطوں کی تبدیلی سے
لفظ کو بدل دینا ۔
تبیض:-
مسودے کو صاف صاف کر کے نقل کرنا ۔
اوقاف :-
جملے – فقرے – لفظ میں تحصیص کو اوقاف کہتے ہیں ۔
انتحال :-
کسی دوسرے کی تحقیق کو اپنی تحقیق یا کسی کی تحقیق کو اپنی
تحقیق بنا کر پیش کرنے کو اصطلاح میں انتحال کہتے ہیں ۔
تحریف:-
نقطوں کی تبدیلی سے لفظ کوبدل دینا
حواشی:-
متن میں اضافی
معلومات کو حواشی کہتے ہیں
مخطوطہ:-
قلمی نسخہ کو " خطی نسخہ " کہا جاتا ہے۔ نیز قلمی
اور غیر قلمی مطبوعی نسخے کو مخطوطہ کہا جاتا ہے۔
لوح:-
کسی کتاب کے سر ورک کو لوح کہتے ہیں ۔
تتمہ:-
کتاب مکمل ہونے کے بعد کسی نئے جز کا اضافہ تتمہ کہلاتا ہے۔
اسماء الرجال :-
اشائیے میں اشخاص کے نام کو کہتے ہیں ۔
0 Comments