اردو زبان کی ابتداءوپیدائش
Urdu Ki Ibtada Kay Mataluq Nazriat
A short history of the Urdu
اردو حافظ محمود شیرانی |
اردوزبان پنجاب میں پیدا ہوئی |
مسعود حسن خان |
اردو دہلی کی نواح بولیوں میں سے |
محی الدین قادری زور |
اردو ہریانوی سے وجود میں آئی ہے |
سید سلمان ندوی |
اُردو سندھی زبان سے وجود میں آئی |
سہیل بخاری |
اُردو کی جنم بھومی اڑیسہ میں سے ہوئی |
محمد حسین آزاد |
اُردو برج بھاشا اڑیسہ میں سے ہوئی |
شوکت سبزواری |
اُردو کھڑی بولیوں سے وجود میں آئی |
اختر اور نپوی |
اُردو مکدھی بولیوں سے وجود میں آئی |
سر سید احمد خان |
اُردو دہلی کی زبان ہے |
عین الحق فرید کوٹی |
اُردو دراوڑی سے نکلی ہے |
اردو زبان کی ابتداءوپیدائش
سے متعلق نظریات
اُردو زبان کی ابتداء و آغاز سے
متعلق کئی محتلف و متضاد آراء ملتی ہیں جو
کہ آپس میں اس قدر محتلف نظر آتی ہیں کہ انسان کا دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے۔ مورخین
محققین کی ان آراء اور نظریات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
دکن میں اُردو
نصیر الدین
ہاشمی اُردو کی ابتداء کا سُراغ دکن میں
لگاتے ہیں اُن کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ عرب ہندوستان میں مالابار کے ساحلوں پر
طلوع اسلام سے قبل بغرض تجارت آئے ان کے
اور دکن کے لوگوں کے درمیان روزمرہ
گفتگو،بول چال اور اختلاط و میلاپ و ارتباط کی بنیاد پر اُنکو ایک ایسی زبان کی
ضرورت پیش آئی ہوگئی جو کسی قدر آسان فہم ہو۔لہٰذاجو زبان مشترک وسیلہ اظہار قرار
پائی وہ اُردو کی ابتدائی ضرورت ہو گئی
جدید تحقیق کی روشنی میں اور ڈاکٹر غلام حسین نے اس نظریے کی
تردید کر دی۔کیو نکہ عربی ایک سامی النسل تھےاور اُردو کا تعلق آریائی خاندان سے
ہے اس لیے اُردو کی ابتداء کو دکن سے جوڑنا خارج از بحث ہے بے شک عربی لوگ تجارت
کیلئے آتے تھے مگر اُ نکی واپسی بھی جلد ہو جاتی تھی عربوں کے ساتھ انکے تجارتی و
مقامی تعلقات لسانی سطح پر بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے۔
سندھ میں اُردو
سید سلیمان
ندوی کے مطابق مسلمان سلاطین کی آمد سب سے پہلے سندھ میں ہوئی تو اختلاط و اتباط
میل ملاپ کی وجہ سے سندھی زبان کے اثرات اُردو زبان پر ہوئے۔مگر یہ کہناکہ اُردو
زبان کی ابتداء یہاں سے ہوئی یہ کہنا ٹھیک نہیں ہو گا کیونکہ سندھ میں سب سے پہلے عرب فاتحین آئے
جس سے سندھی زبان پر اثرات ظاہر ہوئے آج بھی سندھی اور ملتانی علاقے پر سندھی زبان
پر عربی کے اثرات نظر آتے ہیں۔عربی کے علاوہ فارسی زبان کی آمیزش بھی ملتی ہے۔
پنجاب میں اُردو
حافظ محمود شیرانی
کے نظریے کے مطابق اُردو کی ابتدا پنجاب سے ہوئی حافظ صاحب نے گہرے لسانی مطالعے
اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے۔ ان خیال کے مطابق جب سلطان
محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے ۔ جس کے
نتیجے میں فارسی بولنے والے افراد کی حکومت
قائم ہوئی۔دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔جن کی وجہ سے اُردو
کا ابتدائی ڈھانچہ یہاں تیار ہوا۔حافظ محمود نے اس سلسے میں اس خطبے کے ابتدائی
شعراکرام کا کلام پیش کیا ہے جن میں اُردو
کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں ۔ حافظ محمود اُردو اور پنجابی کے لسانی شہادتوں اور مما ثلتوں
سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کر کے اپنے اس نظریے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ
اُردو اپنی صرف ونحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ الغرض اگر ہم آپس میں
پروفیسر شیرانی کی تحقیق پر تنقیدی نظر ڈالیں تو پنجابی اور اُردو کی آپس میں صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے
بہت قریب ہے۔پنجاب اور اردو کی آپس میں
مماثلوں پر نظر ڈالیں تو ہی یہ حقیقت کچھ حد تک واضح ہوتی ہے کہ اردو کی ابتداء وارتقاء
پنجاب سے ہی ہوئی۔
الف۔ اردو اور پنجابی میں تذکرو تانیث کے قواعد
یکساں ہیں۔مثلاَجو الفاظ "الف"پر ختم ہوں تو"ی"میں بدل جاتا
ہے۔بکرا –بکری
ب۔مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں
میں یکساں ہے یعنی فعل امر کے آخر
میں "نا" کے اضافے سے مصدر بنایا جاتا ہے۔
ج۔ فعل تزکیر و ثانیت دونوں میں اپنے فاعل کی حالت کے مطابق آتا ہے ۔
لڑکا آیا (اُردو) منڈا آیا (پنجابی)
د۔ فعل لازم سے فعل متعدی
بنانے کے قاعد بھی دونوں زبانوں
میں یکساں ہیں ۔ سکھنا سے
سکھانا (پنجابی) بیٹھنا سے بٹھانا (اُردو)
آپ کے نظریے کے بعد
محمدحسین آزاد کے نظریے
کی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ پروفیسر
سینٹی کمار چیڑ جی نے بھی اور ڈاکٹر محی الدین قادری
زور بھی کسی حدتک
اس نظریے کے قائل ہوئے/ پنجاب میں اُردو کا نظریہ
خاصہ مقبول رہا۔ مگر پنڈت نرج موہن
تاتریہ کیفی کی تالیف
" کیفیہ" کے منظر عام پر آنے
سے یہ نظریہ مشکوک ہو گیا۔ مگر خود پنڈت
موصوف اُردو کی ابتداء کے بارے میں
کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔
دہلی و گردونواح میں اُردو
اس نظریے کے حامل
محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے
باخبر ہیں مگر اُردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کر کے دہلی اور اُس کے گردونواح کو مرکزی حیثیت قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریہ اگر چہ اُردو کی نشوونما اور ارتقاء کے بارے میں تو مانا جا سکتا ہے مگر
اُردو کی پیدائش کے حوالے سے قطعی
قابل قبول نہیں۔دہلی اور اسکے گر
دونواح کو اُردو کا مولود مسکن
قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ:-
یہ سمجھ نہیں آتا کہ اُردو کی ابتداء
کا تعلق مسلمانوں کی ہندوستان آمد اور
فتوحات سے کیوں جوڑا جاتا ہے اُردو
مسلمانوں کی آمد سے پہلے دہلی اور اس کے گردونواح
میں موجود تھی۔ لیکن اس زبان کا
آغاز اس علاقے سے ان اضلاع سے ہوا یہ کہنا بغیر کسی ثبوت کے قابل نہیں ہوگا۔ ان نظریات کے علاوہ وہ میر امن ، سر سید، محمد حسین آزاد نےبھی کچھ نظریات اپنی تصانیف
میں پیش کیے ہیں۔لیکن یہ نظر
یات حقیقت سے بہت دور ہیں۔
مجموعی جائزہ
اُردو کی ابتداء کے حوالے سے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ نظریہ بہت استدلال وز
ن رکھتا ہے کہ غزنوی دور میں جو کہ
ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور
پذیر ہو سکتی ہے۔ بر حا ل قطب
الدین ایبک کے فوجی
اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی
ایسی زبان ضرور لائے جس میں خود
مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں
اور ہند و قومیں سمجھ سکیں۔جس کو وہ قیام
پنجاب کے زمانے میں بولتے رہے
ہوں یوں محققین کی اِن زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھگ اس زمانے
میں ہو گیا۔ جب مسلم فاتحین مغربی
ہند موجودہ ( مغربی پاکستان) کے
علاقوں میں آباد ہوئے۔ تو یہاں اِسلامی
اثرات بڑی سرعت کے ساتھ
پھیلنے لگے۔
0 Comments